دعاء میں طلب کے الفاظ ضروری ہیں یا اللہ کی تعریف و توصیف بھی دعا ہے

سوال کا متن:

نماز کے بعد جب دعا مانگتے ہیں تو جہاں تک میں سمجھتا ہوں الفاظ دعائیہ ہونے چاہیں پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف کے ساتھ دعا مانگی جا سکتی ہے۔ ہماری مسجد کے امام صاحب مغرب کی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر پڑھتے ہیں قل یا عبادی الذین اسرفوا… الغفور الرّحیم ان الفاظ میں گناہوں سے توبہ کرنے کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت ہے دعاء کی کوئی بات نہیں ہے۔ اسی طرح فجر کی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر اللّٰھم یا مالک الملک توتی الملک … و ترزق من تشآء بغیر حساب اس میں بھی دعائیہ الفاظ نہیں ہیں اس میں اللہ تعالیٰ کی توصیف تو ہے مگر طلب نام کی کوئی بات نہیں ہے ’’بغیر حساب‘‘ کے بعد اگر رزق میں وسعت طلب کی جائے تو دعابنتی ہے اس پر ایک دو صاحبان لاریب کہتے ہیں۔ میرا مؤقف یہ ہے کہ یہ دونوں دعائیں نہیں ہیں۔

جواب کا متن:

واقعۃً دعا کے مفہوم میں طلب اور سوال کا معنی ملحوظ ہے لیکن یہ طلب اورسوال کبھی صاف صاف لفظوں میں ہوتا ہے اور کبھی صراحتاً لفظوں میں نہیں ہوتا مگر دعائیہ کلمات سے اشارۃً طلب کے معنی مفہوم ہوتے ہیں احادیث اور اقوال فقہاء کی روشنی میں دونوں طریقہ سے دعا مانگنا جائز اور درست ہے کیونکہ سخی کا تعریف کرنا بھی اس سے مانگنا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ عرفہ کے دن آپ ا کی اکثر دعا ء یہ تھی۔ لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر (رواہ احمد و رجالہ موثقون، مجمع الزوائد ص۳/۲۵۲) اس حدیث میں بھی دعامیں طلب کی تصریح نہیں ، لہذا دعامیں طلب کی تصریح ضروری نہیں ہے اسی طرح سوال میں ذکر کردہ آیات میں اگرچہ صراحۃ ً طلب کا کوئی لفظ نہیں لیکن پہلی آیت سے توبہ و استغفار کے معنی اشارۃ ً نکلتے ہیں اور دوسری آیت سے طلب عزت و خیر اور فراخی رزق کے معنی مفہوم ہوتے ہیں لہذا ذکر کردہ آیات میں بھی دعا کے معنی پائے جاتے ہیں۔

البتہ حضرات فقہائے کرام کی تصریح کے مطابق ایک ہی دعا کو یاد کر کے بار بار اسی کا تکرار کرنا دعامیں خشوع اور خضوع کے منافی ہے نیز کتب احادیث میں آنحضرت ا سے بھی متعدد دعائیں منقول ہیں۔ لہذا کسی خاص دعا کو متعین کرنے کی بجائے مختلف جامع دعائیں کرنی چاہیں۔

عن عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا قالت کان رسول اللہ ﷺ یستحب الجوامع من الدعاء و یدع ما سوی ذلک (مشکوٰۃ مع المرقاۃ ۵:۲۳) وعن سعد رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ دعوۃ ذی النون اذ ادعار بہ وھو فی بطن الحوت لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین (مشکوٰۃ مع المرقاۃ ۵:۱۱۹)ثم جلس ابو موسیٰ یدعو فقال اللھم انی اشھدک انک انت اللہ لا الہ الا انت احداً صمدا لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد فقال رسول اللہ ﷺ لقد سأل اللہ باسمہ الذی اذا سئل بہ اعطی واذا دعی بہ اجاب (مشکوٰۃ مع المرقاۃ ۵:۱۲۱)وفی المشکوٰۃ: وعن جابر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ افضل الذکر لا الہ الا اللہ وافضل الدعاء الحمد اھ وفی المرقاۃ تحتہ: لان الدعاء عبارۃ عن ذکر اللہ وأن یطلب منہ حاجتہ والحمد للہ یشملھا فان من حمد اللہ یحمدہ علی نعمتہ والحمد علی النعمۃ طلب المزید وھو رأس الشکر… قال الطیبی اطلاق الدعاء علی الحمد من باب المجاز ولعلہ افضل الدعاء من حیث انہ سوال لطیف یدق مسلکہ (۵/۱۳۴) وفی المرقاۃ: وقد سبق فی الحدیث الصحیح من شغلہ ذکری عن مسئلتی اعطیتہ افضل ما اعطی السائلین وکانہ اشارۃ الیٰ ان السوال بلسان الحال ادعی الی وصول الکمال من بیان المقال (۵:۱۷) [تتمہ] ینبغی ان یدعو فی صلاتہ بدعا محفوظ واما فی غیرھا فینبغی ان یدعو بما یحضر ولا یستحضر الدعاء لان حفظہ یذھب برقۃ القلب

(شامی/ ۱:۵۲۳) تاتار خانیہ /۱: ۵۴۹، البحر الرائق /۱:۳۳۲)
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :545