دودھ کے عوض گائے کے اجارے کا حکم

سوال کا متن:

ہمارے والد صاحب نے اپنے دوست شیر محمد کے ساتھ اس کی مملوکہ گائے اور اس کے بچھڑے جنکی قیمت ۳۵۰۰۰ روپے ہے میں نصف رقم دیکر شراکت کر لی اور یہ طے ہوا کہ خدمت شیر محمد کرے گا اور دودھ بھی وہی حاصل کرے گا اور سال کے بعد بچھڑا فروخت کرکے منافع تقسیم کرلیں گے۔ پھر شیر محمد نے ہمارے والد کی مملوکہ بھینس اور اس کا بچہ (جس کی قیمت ۶۰۰۰۰ روپے طے ہوئی تھی) کے نصف حصے کو ۳۰۰۰۰ روپے میں خرید کر شراکت کرلی اور طے یہ ہوا کہ خدمت چار ماہ اس کے ذمہ ہوگی اور دودھ بھی وہی لے گا البتہ اس کا بچہ بڑا ہوتے ہی تقسیم کریں گے۔ اور یہ وعدہ کیا کہ وہ یہ رقم ایک سال میں ادا کرے گا۔ اور انہیں اپنے پاس لے گیا۔۴ ماہ تک اس کادودھ استعمال کیا ۔مذکورہ دونوں معاملوں کے بعد شیر محمد نے خیانت کی کہ اس نے بچھڑا ہمیں بتائے بغیر۸۰۰۰ میں فروخت کردیا اور ۴ ماہ بعد جب بھینس کا دودھ ختم ہوگیا تو اس نے کہا کہ بھینس واپس لے لو میں اپنا حصہ نہیں خریدتا اس پر والد صاحب نے اس سے بھینس واپس لے لی اور اس کو کہا کہ گائے کی شراکت بھی ختم کردو اور ہمارے پیسے واپس کردواس نے کہا کہ بھینس کی دیکھ بھال کی اجرت ۲۴۰۰۰ روپے بنتی ہے لہذا آپکی گائے کی قیمت اسی میں ختم ہو گئی۔ہم نے پیسے نکلوانے کے لئے گائے کا اس سے ۲۶۰۰۰ روپے میں سودا کرکے اسے آگے ۱۹۰۰۰ میں فروخت کرکے اپنی رقم وصول کر لی (۱) اب پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں کیا ہمارے ذمہ شیر محمد کوکوئی رقم ادا کرنا شرعاً لازم ہے یا نہیں۔ جبکہ شیر محمد کا مطالبہ یہ ہے کہ اس کو طے شدہ ۲۶۰۰۰ روپے اد کئے جائیں۔(۲) کیا شیر محمد کے لئے بھینس کی خدمت و چارہ کی اجرت طلب کرنا جائز ہے؟

جواب کا متن:

مذکورہ صورت کے حقیقت پر مبنی ہونے کی صورت میں آپ کے والد کا مشترکہ گائے اور بھینس میں سے اپنا حصہ دودھ کے عوض شیر محمد کو خدمت کے لئے دینا اجارہ فاسدہ ہے اور اس کا حکم یہ ہے کہ گائے اور بھینس میں آپ کے والد کے مملوکہ حصے کے بقدر خدمت کی اجرت مثل کا شیر محمد حق دار ہے اور شیر محمد نے گائے او ربھینس سے جتنا دودھ حاصل کیا ہے اس میں سے نصف دودھ کی قیمت کے آپ کے والد حق دار ہیں نیز گائے کا بچھڑا فروخت کرکے جو رقم حاصل ہوئی ہے اس میں سے بھی نصف قیمت آپ کے والد کودی جائے گی۔ آخر میں آپ نے شیر محمد سے جس گائے کا سودہ کیا اس میں سے نصف گائے کے چونکہ پہلے سے آپ مالک ہیں اس لئے یہ سودا صرف شیر محمد کے مملوکہ حصہ میں نافذ ہوگا۔ لہٰذا شیر محمد گائے کی طے شدہ قیمت میں سے صرف نصف یعنی ۱۳۰۰۰ روپے کا حق دار ہوگا مذکورہ تفصیل کو مدنظر رکھتے ہوئے فریقین آپس کے لین دین کو مکمل کرنے کے لئے رضامندی سے کوئی بھی جائز صورت اختیار کر سکتے ہیں۔

علم من ھذا ما یقع کثیراً وھو ان احد الشریکین فی دار ونحوھا یشتری من شریکہ جمیع الدار بثمن معلوم فانہ یصح علی الاصح بحصۃ شریکہ من الثمن الخ شامیہ (ص ۱۱۶ : ج۴)

وحکم الاول وھو الفاسد وجوب اجر المثل بالاستعمال الخ (شامیہ ۳۱ : ج ۵)
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :627