تعزیت کا مسنون طریقہ

سوال کا متن:

اگر کسی شخص کا انتقال ہو جائے توتعزیت کے لئے کن باتوں اور آداب کا خیال رکھنا چاہئیے۔ نمبر وار ذکر فرمادیں۔ تاکہ یاد کرنے اور آگے بھیجنے میں آسانی ہو۔

جواب کا متن:

میت کے اہل خانہ سے تعزیت کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت طیبہ ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کی تو اس کو اتنا ہی اجر ملے کا جتنا مصیبت زدہ کو ملتا ہے۔ (ترمذی رقم الحدیث ۱۰۹۶ ابن ماجہ رقم الحدیث ۱۶۷۰)

سنت یہ ہے کہ تعزیت کے وقت اولاً اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی جائے اور اللہ کے فیصلے پر سکون و رضاء کا اظہار کیا جائے او رمصیبت زدہ کو یہ دُعا دی جائے۔

اعظم اللّٰہ اجرک واحسن عزا ء ک وغفرلمیتک

اور ایسی بات بیان کی جائے جس سے غم ہلکا ہو، تسکین اور فکر آخرت پیدا ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے بیٹے کی وفات پر ان کو جو تعزیت کا خط بھیجا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

’’حمد و ثناء کے بعد اللہ تعالیٰ تمہیں اجر عظیم عطا فرمائے اور صبر کی توفیق دے اور ہمیں اور تمہیں شکر ادا کرنا نصیب فرمائے اس لیے کہ بیشک ہماری جانیں، ہمارا مال، ہمارے اہل و عیال اور ہماری اولاد اللہ بزرگ و برتر کے خوشگوار عطیے اور امانت کے طور پر سپرد کی ہوئی اشیاء ہیں جس سے ہمیں ایک معینہ مدت تک فائدہ اٹھانے کا موقعہ دیا جاتا ہے اور مقررہ وقت پر اللہ تعالیٰ واپس لے لیتا ہے پھر ہم پر فرض عائد کیا گیا ہے کہ جب وہ دے تو ہم شکر ادا کریں اور جب وہ آزمائش کرے تو صبر کریں۔ تمہارا بیٹا بھی اللہ تعالیٰ کی انہی خوشگوار نعمتوں اور سپرد کی ہوئی امانتوں میں سے تھا اللہ تعالیٰ نے اس سے تم کو قابل رشک اور خوشیوں والا نفع پہنچایا اور اب اجر عظیم رحمت اور مغفرت اور ہدایت کا عوض دے کر لے لیا بشرطیکہ تم صبر کرو تم صبر کے ساتھ رہو یاد رکھو کہ تمہارا رونا دھونا تمہارے اجر کو ضائع نہ کر دے کہ پھر تمہیں پریشانی اٹھانی پڑے یاد رکھو کہ رونا کچھ واپس نہیں لاتا اور نہ ہی غم کو دور کرتا ہے اور جو ہونے والا ہے وہ تو ہو کر رہے گا اور جو ہونا تھا وہ ہو چکا‘‘۔ (ترمذی)

٭تعزیت تین دن کے بعد جائز نہیں البتہ دور رہنے والا شخص تین روز کے بعد آئے تو وہ تعزیت کر سکتا ہے۔

٭ہر ایک کے لیے مستقلاً تعزیت مسنون ہے البتہ گھرانے کا کوئی بڑا ساتھ ہو تو اس صورت میں ماتحتوں کی طرف سے اس ایک کی تعزیت بھی کافی ہے۔

لما فی ’’الشامیہ‘‘:

واولھا افضل و تکرہ بعدھا الالغائب وتکرہ التعزیہ ثانیا ویقول عظم اللہ اجرک واحسن عزاء ک ۔ (۱/۶۶۵)
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :698