میت کی تجہیز و تکفین کی ذمہ داری

سوال کا متن:

اگر ایک محلے میں جنازہ ہے تو سب لوگ اس میں شریک نہیں ہوتے۔ حالانکہ ہمارے ہاں گورکن نہیں ہوتے او رپہاڑوں میں سخت پتھروں کو کاٹ کر قبر بنانی پڑتی ہے، جو نہایت مشکل کام ہوتا ہے اور لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے اور چند لوگ اس کے لیے بالکل ناکافی ہوتے ہیں جو لوگ تجہیز و تکفین میں شریک نہیں ہوتے تو ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب کا متن:

میت کے ترکہ میں اگر اس قدر مال ہو جس سے گورکن اور قبر کی زمین کی اجرت ادا کی جا سکے تو اجرت دے کر قبر کھودوانے کا انتظام کر لیا جائے اور اگر اتنا مال نہ ہو تو اتنے آدمیوں کا ہونا ضروری ہے جن سے بآسانی دفنانے کا انتظام ہو سکے، اس صورت میں جو لوگ اس میں شریک نہ ہوں گے وہ گنہگار ہوں گے کیونکہ میت کو دفن کرنا بھی فرض کفایہ ہے اس کے لیے اتنے آدمی ہونے چاہئیں کہ یہ فرض بآسانی ادا ہو سکے۔

(والصلوٰۃ علیہ فرض کفایۃ کدفنہ) وغسلہ وتجہیزہ و تکفینہ فانھا فرض کفایۃ۔ (الدرالمختار ۲:۲۰۷) وکذافی العالمگیریۃ ۱:۱۶۵)

وفی النوازل سئل عن أجر القبر یکون من جمیع المال قال ھو بمنزلۃ الکفن من جمیع المال کذافی التتارخانیۃ۔ (عالمگیریۃ ص ۴۵۲، ج ۴)

وفی التجرید رجل استأ جرقوماً یحملون جنازۃ أو یغسلون میتا ان کان فی موضع لایجد من یغسلہ غیر ھٰؤلاء ومن یحملہ غیر ھٰؤلاء فلا أجرلھم وان کان ثمۃ أناس فلھم الاجر وحفر الحفار علی ہذا وفی موضوع لااجرلھم لو اخذوا الاجر لایطیب لھم کذافی الخلاصۃ۔ (عالمگیریۃ ص ۴۵۲، ج ۴)
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :701