دو بہنوں اور چار بھتیجوں اور دو بھتیجیوں کے درمیان تقسیم ترکہ

سوال کا متن:

سلطان علی کا بیٹا کوئی نہیں والدین پہلے فوت ہوچکے ہیں سلطان علی کی ایک بیٹی تھی جو پہلے ہی فوت ہو چکی ہے۔ اس نے دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں سلطان علی کی دو بہنیں اور ایک بھائی فتح محمد تھا جو پہلے ہی فوت ہو چکا ہے کیا اسلامی نکتہ نگاہ سے سلطان علی کی بہنیں اور بھائی فتح محمد (جو پہلے ہی فوت ہو چکاتھا) یا کہ بیٹی مرحومہ کی اولاد صحیح وارث ہیں۔ کیا فتح محمد مرحوم کے 4بیٹے اور 2 بیٹیوں اور 2بہنوں کا کوئی حصہ وراثت میں بنتا ہے۔ ان حصوں کا تناسب کیا ہوگا۔

جواب کا متن:

(۱)مورث کے انتقال کے وقت وارث کا حیات ہونا ضروری ہے لہٰذا سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق سلطان علی مرحوم کے انتقال سے پہلے جو ورثاء وفات پاچکے ہیں شرعاً ان کا میراث میں کچھ حصہ نہیں ہے صرف بہنیں اور بھتیجے، بھتیجیاں میراث کے مستحق ہیں۔

(۲) ہر وہ مال جو بوقت انتقال مرحوم کی ملکیت میں ہو خواہ جائیداد منقولہ ہو جیسے سونا چاندی اور روپے وغیرہ یا غیر منقولہ ہو جیسے مکان اور پلاٹ وغیرہ۔ اس کو ترکہ شمار کیا جاتا ہے ترکہ سے تین قسم کے حقوق متعلق ہوتے ہیں جن کو ذکر کی گئی ترتیب کے مطابق ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔

۱۔ سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن پر ہونے والے جائز و متوسط اخراجات مرحوم کے ترکہ سے نکالے جاتے ہیں البتہ اگر کسی وارث نے بخوشی یہ اخراجات برداشت کر لئے ہوں تو ترکہ سے نکالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

۲۔ اس کے بعد باقی مال سے مرحوم پر اگر کسی کا قرض ہو وہ ادا کیا جاتا ہے۔ خواہ قرضوں کی ادائیگی میں سارا مال لگ جائے۔

۳۔ اس کے بعد باقی مال کے تہائی تک اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کے حق میں جائز وصیت کی ہو اس کو نافذ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد باقی مال کو ورثاء میں اس طرح تقسیم کریں گے کہ کل مال کے ۳۰ حصے کرکے ہر بہن کو ۱۰ حصے اور ہر ایک بھتیجے کو دو اور بھتیجی کو ایک حصہ دیا جائے گا۔ آسانی کے لئے میراث کا نقشہ بنا دیا گیا ہے۔

۳×۱۰ ؍ ۳۰ مضروب ۱۰

میت

بہنیں ۲ بھتیجے۴ بھتیجیاں۲

ثلثان ۱۰

۲۰ فی کس ۲ فی کس ۱
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :887