غصہ کی حالت میں بیوی کو تم میرے گھر سے چلی جائو، تم میرے کام کی نہیں کہنے کا حکم

سوال کا متن:

ایک شخص نے اپنی بیوی سے جھگڑے کے دوران کہاکہ تم میرے گھر سے چلی جائو تم میرے کام کی نہیں۔ آیا اس جملہ سے کوئی طلاق تو واقع نہیں ہوتی؟ یہ جملہ اس شخص نے دوتین بار دہرایا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں مسئلہ کا حل بیان فرمائیں۔تنقیح:آپ نے ان جملوں سے طلاق دینے کی نیت کی تھی یا نہیں؟جواب تنقیح:ان الفاظ سے میری طلاق کی نیت تھی۔

جواب کا متن:

صورت مسئولہ میں مرد نے دو جملے استعمال کئے ہیں۔

ا۔ میرے گھر سے چلی جا۔ ۲۔ تو میرے کام کی نہیںہے۔

یہ دونوں جملے ان الفاظ کنایات میں سے ہیں جن سے طلاق کی نیت کے ساتھ طلاق بائن واقع ہوتی ہے اور یہاں نیت پائی جا رہی ہے جس کی وضاحت سائل نے جواب تنقیح میں کر دی ہے۔

اصول یہ ہے کہ ایک طلاق بائن کے بعد عورت دوسری اور تیسری طلاق بائن کا محل نہیں رہتی۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں مرد کے پہلے جملے ’’میرے گھر سے چلی جا‘‘ سے عورت پر ایک طلاق بائن واقع ہو چکی ہے اور دوسرا جملہ لغو ہے۔

اس کا حکم یہ ہے کہ عورت مرد کے نکاح سے نکل چکی ہے۔ عدت کے بعد دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔البتہ اگر یہ دونوں باہمی رضامندی سے دوبارہ زوجیت کی زندگی گزارنا چاہیں تو عدت کے دوران یا نئے نکاح کے ساتھ گزار سکتے ہیں البتہ آئندہ شوہر کے لئے صرف دو طلاقوں کا حق باقی رہے گا اس لئے احتیاط سے زندگی گزاریں۔

وفی ’’البحر الرائق‘‘:

ان من الکنایات ثلاثۃ عشر لا یعتبر فیھا دلالۃ الحال ولا تقع الا بالنیۃ اخرجی اذھبی لا نکاح لی علیک (۳؍۳۰۳)

وفی کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعۃ:

ما یصلح ردا منھا اخرجی وحکم ھذا القسم ان الطلاق لا یقع الا بالنیۃ (۳؍۳۴۲)

وفی ’’الفتاوی التاتارخانیہ‘‘:

قال الزوج: چنگ باز داشتم چنگ باز داشتم چنگ باز داشتم۔ قال الفقیہ : لا تقع الا واحدۃ۔

وفی ’’المغنی لابن قدامۃ‘‘:

ولان الکنایات مع النیۃ کالصریح فلم یقع بہ عند الاطلاق اکثر من واحدۃ (۱۰؍۳۶۴)
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :857