طلاق معلق بالشرط کا حکم

سوال کا متن:

میری بیٹی کے شوہر نے چند یوم پہلے یہ الفاظ کہے کہ اگر تم نے میرے گھر کے افراد میری بہنیں یا ماں کے بارے میں کچھ بھی اپنے گھر والوں (والدین، بھائی وغیرہ) کو بتایا تو ہمارا رشتہ ختم۔گزشتہ کل میری بیٹی میرے پاس آئی تو میرے پوچھنے پر اس نے کئی باتیں اپنے شوہر، ساس اور نند کے بارے میں بتائیں اُس کے بعد مزید پوچھنے پر اس نے مزید بتانے سے انکار کر دیا میرے دبائو ڈالنے پر اُس نے مزید نہ بتانے کی وجہ یہ بتائی کہ چند یوم پہلے میرے شوہر نے مجھ سے مخاطب ہو کرمذکورہ بالا جملہ ’’اگر تم نے میرے گھر کے افراد میری بہن یا ماں کے بارے میں کچھ بھی اپنے گھر والوں (والدین بھائی وغیرہ کو) بتایا تو ہمارا رشتہ ختم‘‘ کہا ہے۔معلوم یہ کرنا ہے اس صورت حال میں ہمارے لئے شرعی حکم کیا ہے۔تنقیح:طلاق کو معلق کرنے سے خاوند کا مقصد طلاق دینا تھا یا نہیں؟جواب تنقیح:اس جملہ سے خاوند کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی۔

جواب کا متن:

طلاق کو شرط کے ساتھ معلق کرنے کی صورت میں اگر تعلیق لفظ صریح کے ساتھ ہو یا ایسے لفظ کنایہ کے ساتھ ہو جو لفظ صریح کے حکم میں ہے۔ تو شرط کے پائے جانے کے وقت طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ خواہ طلاق کی نیت ہو یا نہ ہو۔ اور اگر تعلیق لفظ کنایہ کے ساتھ ہو تو شرط کے پائے جانے کے وقت حکم کا مدار نیت پر ہوگا۔ یعنی اگر لفط کنایہ کے ساتھ تعلیق ہوتو اس میں شرط کے پائے جانے کے وقت نیت یا قائم مقام نیت (غصہ یا مذاکرہ طلاق) کے ساتھ طلاق واقع ہو گی۔ صورت مسئولہ میں خاوند نے تعلیق لفظ کنایہ کے ساتھ کی تھی جس سے طلاق واقع ہونے کے لئے نیت کی ضرورت تھی، اور اس سے خاوند کی طلاق کی نیت نہیں تھی جیسا کہ جواب تنقیح میں وضاحت کردی ہے۔ اس لئے طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔

لما فی ’’الشامیۃ‘‘:

الایمان مبنیۃ علی الالفاظ لا علی الاغراض ای الالفاظ العرفیۃ بقرینۃ ماقبلہ (۳؍۷۴۲ : سعید)

وفی ’’ الفقہ الاسلامی وادلتہ‘‘:

قال الحنفیۃ: الایمان مبنیۃ علی العرف والعادۃ لاعلی المقاصد و النیات لان غرض الحالف ھو المعھود المتعارف عندہ فیتقید بغرضہ ھو الغالب عندھم وقد تبنی الایمان عندھم علی الالفاظ لا علی الاغراض ۔ (۴؍۲۴۸۳ : رشیدیہ)
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :858