مطلقہ سے نکاح کرنے کے بعد اس کے متعلق لوگوں کی طرف سے

شکوک و شبہات پیدا کرنا

سوال کا متن:

میرا نکاح ایک لڑکی سے ہوا جس کے بارے میں اس کے گھر والوں نے مجھے ایک ورق دکھایا جس میں اس کے شوہر نے اس کو طلاق لکھی تھی اور رخصتی سے قبل طلاق دی تھی بعد میں کچھ لوگ شکوک و شبہات ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے شوہر نے اس کو طلاق نہیں دی تھی حالانکہ اس کے تمام گھر والے اور اس کے بہنوئی کا بیان ہے کہ پہلے شوہر نے طلاق دی ہے اور پہلے شوہر سے اب ملاقات بھی ممکن نہیں اور اگر ملاقات ہو جائے تو ممکن ہے کہ وہ دشمنی کی وجہ سے صحیح بات نہ بتائے، اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب کا متن:

سوال میں ذکر کردہ صورت حال کے مطابق آپ کا نکاح صحیح طور پر منعقد ہو چکا ہے اس کے بعد بعض رشتہ داروں کی طرف سے شبہ ڈالنے کی وجہ سے نکاح کی صحت میں کوئی فرق نہیں پڑتا جب تک کہ یہ بات یقینی طور پر ثابت نہ ہو جائے کہ پہلے شوہر سے طلاق لیے بغیر نکاح کیا گیا ہے اور شرعاً اس معاملہ کی زیادہ تحقیق اور چھان بین آپ پر لازم نہیں، اور نکاح صحیح ہو جانے کے بعد ازدواجی تعلقات رکھنا آپ کے لیے جائز ہے۔

فی الھدایۃ: وکذالوقالت لرجل طلقنی زوجی وانقضت عدتی فلابأس أن یتزوجھا … لان القاطع طار، ولوأخبرھا مخبرأن أصل النکاح کان فاسدا أوکان الزوج حین تزوجھا مرتدا أو أخاھا من الرضاعۃ لم یقبل قولہ حتی یشھد بذلک رجلان أورجل وإمرأتان وفی الکفایۃ: (قولہ لأن القاطع) أی للزوجیۃ طارولا منازع بخلاف ما اذا أخبرہ أن أصل النکاح کان فاسدا وأخواتہ لأن المفسد مقارن والا قدام علی العقدیدل علی صحتہ وانکار فسادہ فیثبت المنازع بالظاھر فالحاصل أنالم نقبل خبرا لواحد فی موضع المنازعۃ لحاجتنا الی الا لزام وقبلناہ فی موضوع المسالمۃ لعدمہ (۸: ۳۹: ۴۹۱) فی الخانیۃ: قالت ارتد زوجی بعد النکاح وسعہ أن یعتمد علی خبرھا ویتزوجھا وان أخبرت بالحرمۃ بأمر عارض بعد النکاح من رضاع طاریٔ أونحوذلک فان کانت ثقۃ أولم تکن ووقع فی قلبہ صدقھا فلا بأس بأن یتزوجھا الا لوقالت کان نکاحی فاسدا أوکان زوجی علی غیر الاسلام لانھا أخبرت بأمر مستنکرأی لان الأصل صحۃ النکاح (شامیۃ ۳:۵۲۹)
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :930