خالہ اور بھانجی کو نکاح میں جمع کرنا اور اس پر مرتب ہونے والے احکامات

سوال کا متن:

کیا ارشاد فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میںکہ ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا اور اس کے ہاں اولاد بھی پیدا ہوئی بعد ازاں اس شخص نے پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری عورت سے نکاح کیا جو کہ پہلی بیوی کی سگی بھانجی ہے۔ یعنی کہ خالہ اور بھانجی کو بیک وقت ایک ہی شخص نے نکاح میں جمع کر لیا اور دوسری بیوی سے بھی اولاد پیدا ہوئی۔ دونوں بیویاں زندہ ہیں اور دونوں میں سے کسی کو طلاق بھی نہیں دی۔عوام کالانعام خاموش ہیں اور علماء تذبذب کا شکار ہیں۔اس عمل سے مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں مطلع فرمائیں؟(۱)کیا دونوں نکاح درست اورجائز ہیں اگر خلاف شریعت ہیں تو ان دونوں میں سے کون سا نکاح باطل ہو گا؟(۲) باطل نکاح والی اولاد کے متعلق شرعاً کیا حکم ہے؟(۳) اگر باطل نکاح والی اولاد حرامی اور ناجائز ہے تو کیا وہ باپ کی وراثت کی حقدار ہو گی یا نہیں؟(۴) کیا حلال اولاد حرامی اولاد کے خلاف حقوق وراثت کا دعویٰ دائر کرنے میں حق بجانب ہو گی؟(۵) باطل نکاح والے جوڑے پر کونسی حد نافذ ہو گی؟ نیز نکاح خواں اور گواہان کا کیا حکم ہے؟مندرجہ بالا صورت کے جوابات مدلل اور بحوالہ دے کر مہر تصدیق ثبت فرمائیں۔

جواب کا متن:

(۱) خالہ کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی بھانجی سے نکاح کرنا حرام ہے اگر کسی شخص نے ایسی دو عورتوں سے یکے بعد دیگرے نکاح کیا ہے تو پہلا نکاح صحیح ہے اور دوسری عورت سے نکاح فاسد ہے ان پر لازم ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو چھوڑ دیں مذکورہ شخص جب تک دوسری عورت کو چھوڑ نہیں دیتا، اور چھوڑنے کے بعد اس کی پوری عدت بھی نہیں گزر جاتی اس وقت تک یہ شخص اپنی پہلی بیوی (جس سے نکاح صحیح ہوا ہے )سے ہم بستری بھی نہیں کرسکتا۔

عن ابی ھ ریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ لا یجمع بین المرأۃ وعمتھا ولابین المرأۃ وخالتھا (متفق علیہ کذا فی المشکوٰۃ مع التعلیق الصبیح : ۴ : ۲۹)

وفی الھدایۃ: فان تزوج اختین فی عقدتین ولا یدری ایتہمااولی فرق بینہ و بینہما وفی فتح القدیر تحتہ وقید بعدم علم الاول اذ لو علم صح النکاح الاول وبطل الثانی ولہ وطء الاولیٰ الا ان یطاء الثانیہ فتحرم الاولیٰ الی انقضاء عدۃ الثانیۃ (۲ : ۱۳۳)

وفی البحر الرائق : ولو کانت ہذہ المرأۃ الموطوئۃ اخت امراتہ حرمت علیہ امرأتہ الی انقضاء عدتہا (۳ : ۱۷۲) وفیہ کل ما ذکرنا من الاحکام بین الاختین فہو الحکم بین کل من لا یجوز جمعہ من المحارم (۳ : ۹۷)

قال الترمذی : العمل علی ھذا عند عامۃ اھل العلم لا نعلم بینھم اختلافا انہ لا یحل للرجل ان یجمع بین المرأۃ وعمتھا او خالتھا ولا ان تنکح المرأۃ علی عمتھا او خالتھا وقال ابن منذر لست اعلم فی منع ذلک اختلافا الیوم وانما قال بالجواز فرقۃ من الخوارج (فتح الباری) کذا فی التعلیق الصبیح : ۴ :۲۷۹)

۲،۳،۴۔ مندرجہ بالا صورت میں فساد نکاح کے باوجود دوسری عورت کی اولاد اپنے والد سے ثابت النسب ہے لہٰذا یہ اولاد وراثت کی حقدار ہے البتہ اس شوہر کی وراثت میں سے اس عورت کو کوئی حصہ نہیں ملے گا جس سے نکاح فاسد ہوا۔ (ملاحظہ ہو ، امداد الاحکام : ۲ : ۲۷۶)

وان تزوجھما فی عقدتین فنکاح الاخیرۃ فاسد یجب علیہ ان یفارقھا ولو علم القاضی بذلک یفرق بینھما فان فارقھا قبل الدخول لایثبت شیء من الاحکام وان فارقھا بعد الدخول فلھا المھر ویجب الاقل من المسمی ومن مھر المثل وعلیھا العدۃ ویثبت النسب ویعتزل عن امرأتہ حتی تنقضی عدۃ اختھا کما فی محیط السرخسی (عالمگیریۃ :۱ : ۲۷۸) ویثبت نسب الولد المولود فی النکاح الفاسد و تعتبر مدۃ النسب من وقت الدخول عند محمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وعلیہ الفتوی (عالمگیریۃ :۱ :۳۳۰)

وان تزوج احداھما بعد الاخری جاز نکاح الاخری وفسد نکاح الثانیۃ ولا یفسد نکاح الاولی لفساد نکاح الثانیۃ لان الجمع حصل بنکاح الثانیۃ فاقتصر الفساد علیہ ویفرق بینہ و بین الثانیۃ فان کان لم یدخل بھا فلا مھر ولا عدۃ وان کان دخل بھا فلھا المھر وعلیھا العدۃ لما بینا (بدائع الصنائع : ۲ :۲۶۳)

وفی الاصل لو تزوج الاختین فی عقد لا یجوز عند ابی حینفہ ؒ خلافا لھما ولو تزوجھما فی عقدتین فنکاح الاولیٰ جائز ونکاح الثانیۃ فاسد فان وطیء الثانیۃ لا یطأ الاولی حتی تنقضی عدۃ الثانیۃ وحکم المہر والنسب یاتی فی فصل النکاح الفاسد (خلاصۃ الفتاوٰی :۲ :۷)

وفیہ فی فصل النکاح الفاسد : فی شرح الطحاوی ولو جاء ت بالولد الی ستۃ اشہر فی النکاح الفاسد یثبت النسب وستۃ اشہر من وقت النکاح وعند محمد من وقت الوطی وعلیہ الفتوی(خلاصۃ الفتاوٰی :۲ :۴۱)

واما النکاح الفاسد فلا حکم لہ قبل الدخول واما بعد الدخول فیتلعق بہ احکام منھا ثبوت النسب… (بدائع الصنائع : ۲ : ۳۳۵)

(ویجب مھر المثل فی نکاح فاسد) … (ویثبت النسب) احتیاطاً بلادعوۃ (کذا فی الدر المختار) (وفی الشامیۃ تحتہ : اما الارث فلا یثبت فیہ (۳ : ۱۳۴)

وفی الکنز : ویثبت النسب وفی البحر الرائق تحتہ ای نسب المولود فی النکاح الفاسد لان النسب ای نسب المولود فی النکاح الفاسد لان النسب مما یحتاط فی اثباتہ احیاء للولد فیترتب علی الثابت من وجہ اطلقہ فأفاد انہ یثبت بغیر دعوۃ (۳ : ۱۷۱)فی الدر المختار : (ویستحق الارث برحم و نکاح ) صحیح فلا توارث بفاسد۔ (۶ : ۷۶۲)

(۵) مندرجہ بالا نکاح فاسد میں شرعاً کوئی حد مقرر نہیں، البتہ قاضی شرعی اس پر مناسب سزا تجویز کر سکتا ہے۔ تاہم لوگوں کو چاہیے کہ ان کو نصیحت دلانے کیلئے ان سے ترک تعلقات کا معاملہ رکھیں تاوقتیکہ یہ ایک دوسرے کو چھوڑ نہ دیں۔

اور فساد نکاح کا علم ہونے کے باوجود جس نکاح خواں نے نکاح پڑھا اور جن گواہوں نے اس پر گواہی دی انہوں نے بہت بڑا جرم کیا ہے ان پر لازم ہے کہ اپنے اس گناہ سے توبہ و استغفار کریں اور سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں، اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا پختہ عزم کریں۔

فی الدر المختار : (و) لا حد ایضا (بشبھۃ العقد) ای عقد النکاح (عندہ) ای الامام (کوطء محرم نکحھا)

وفی الشامیۃ تحتہ : ای عقد علیھا اطلق فی المحرم فشمل المحرم نسبا و رضاعا وصھریۃ واشار الی انہ لو عقد علی منکوحۃ الغیر او معتدتہ …

او جمع بین اختین فی عقدۃ فوطئھما او الاخیرۃ لو کان متعاقبا بعد التزوج فانہ لاحد وھو بالاتفاق علی الاظھر اما عندہ فظاہر واما عندھما فلان الشبھۃ انما تنتفی عندھما اذا کان مجمعا علی تحریمہ وھی محرمۃ علی التابید بحر (۴ : ۲۳)

فی الھدایۃ: (ومن تزوج امرأۃ لا یحل لہ نکاحھا فوطئا لا یجب علیہ الحد عند ابی حنیفۃ) ولکن یوجع عقوبۃ اذا کان علم بذلک وقال ابو یوسف ومحمد والشافعی علیہ الحد اذا کان عالما بذلک لک وفی فتح القدیر تحتہ : ثم قول حافظ الدین فی الکافی فی تعلیل سقوط الحد فی تزوج المجوسیۃ وما معھا لان الشبھۃ انما تنتفی عندھما یعنی حتی یجب الحد اذا کان مجمعا علی تحریمہ وھی حرام علی التابید یقتضی حینئذ ان لا یحد عندھما فی تزوج منکوحۃ الغیر وما معھا لانھا لیست محرمۃ علی التابید فان حرمتھا مقیدۃ ببقاء نکاحھا وعدتھا … وانہ لا یحد عندھما الا فی المحارم فقط وھذا ھو الذی یغلب علی ظنی والذین یعتمد علی نقلھم و تحریرھم مثل ابن المنذر کذالک ذکروا فحکی ابن المنذر عنھما انہ یحد فی ذات المحرم ولا یحد فی غیر ذالک

(ھدایۃ مع فتح القدیر : ۵ : ۴۰ ۔۴۱)
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :932