وارث کو محروم کرنے کی نیت سے ہبہ کرنا

سوال کا متن:

میری پہلی بیوی سے میری اولاد ہے اور دوسری بیوی سے میری اولاد نہیں ہے، ہماری شادی کو تقریباً 24 سال گذر چکے ہیں ہم دونوں خوشگوار زندگی گذارتے رہے ہیں۔ گھر کا مکمل خرچہ اٹھایا۔ زوجہ کو گاڑی اور ڈرائیور مہیا کیا، سیر و تفریح کے لیے بیرون ملک سفر اور تقریباً ہر سال عمرہ بھی کرواتا رہا ہوں۔ ستمبر 2009ء میں ہم رمضان کے عمرہ کے بعد واپس آئے تو ان کو سٹروک ہو چکا تھا بیماری اور علالت کے بعد انہوں نے مندرجہ ذیل کام اپنی بہنوں کی مشاورت کے ساتھ فوری فوری نمٹانے شروع کر دئیے۔PCSIR والی کوٹھی اور گلیمر نمبر 1 پلازہ کے لیے نورالسلام کے نام سے ٹرسٹ بنایا گیا جس میں گلیمر میں آدھا حصہ پہلے سے بغیر پیسے لیے بے نامی میں اپنی بہن کے نام رجسٹری کروا دیا بعد ازاں باقاعدہ ٹرسٹ بنا کر اس پر سرکاری سہولتیں حاصل کر کے پھر وہ بھی اپنی بہن کے نام منتقل کروا دیا، ایک پراپرٹی کراچی والے بھانجے کے نام خرید کی جس کی ادائیگی میری بیوی نے اپنے اکائونٹ سے کی، ڈیفنس کا ایک پلاٹ کراچی والی بہن تمکین عباس کے نام بیماری کی حالت میں منتقل کر دیا، جولائی 2009ء میں بنک لاکر اپنی بہن تحسین ملک کی شرکت میں کر دیا، ایک پلاٹ تحسین ملک پنڈی کے نام خریدا کیا گیا، ادائیگی میری بیوی جمیلہ کے بنک اکائونٹ سے ہوئی، یہ سب کچھ دل کی تکلیف شروع ہونے کے بعد ہو رہا ہے۔ اور یہ سلسلہ مزید جاری ہے، آگے کس حد تک پراپرٹی ان کے نام ہوتی ہے یہ اللہ کو معلوم ہے۔ مقصد واضح ہے کہ وہ چاہتی ہیں مجھے ان کی جائیداد میں سے کچھ بھی حصہ نہ ملے اور میرے ذریعے سے میرے بچوں کو بھی کچھ نہ ملے یہ تو رب کو معلوم ہے کہ کس کی وفات پہلے ہوتی ہے، میں اپنی زندگی میں ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ میں کسی کو وراثت سے محروم کروں، لہٰذا وراثت سے محروم کرنے کے لیے اپنی جائیداد کو ہبہ کر کے کسی کے نام لگوانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟قبل ازیں میری اہلیہ نے جامعہ اشرفیہ سے ایک فتویٰ لیا ہے جس میں اصل صورتحال نہیں بتائی گئی صرف بیوی کا اپنے مال سے ہبہ کا اختیار رکھنے کا سوال پوچھا گیا ہے، جس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ بیوی اپنے مال سے ہبہ کر سکتی ہے لیکن سوال ہبہ کے تعلق سے نہیں سوال تو اس حوالے سے ہے کہ اپنی علالت اور ضعف کو دیکھ کر کوئی شخص ورثاء کو محروم کرنے کے لیے دوسرے اعزہ کے نام جائیداد لگا دے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ میری بیوی کے اپنے عزیزوں کے نام جائیدادیں لگوانے کے ثبوت ساتھ لف ہیں۔

جواب کا متن:

انسان کو اپنی زندگی میں بلاشبہ اس بات کا اختیار ہے کہ وہ ذاتی مملوکہ مال میں جس طرح چاہے تصرف کر سکتا ہے، ہبہ کر سکتا ہے، صدقہ دے سکتا ہے اور کسی بھی خیر کے کام میں صرف کر سکتا ہے، اسی طرح اگر بعض ورثاء کو دین داری خدمت گذاری، خدمات دینیہ کے شغل یا احتیاج کی بنا پر کچھ زائد دے دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس کی نیت ان کاموں سے یہ ہو کہ میرے مرنے کے بعد میرے بننے والے شرعی ورثاء میرے مال سے محروم ہو جائیں یا ان کو میری جائیداد میں سے کچھ حصہ نہ ملے تو یہ ایک طرح کا ضرر اور ورثاء کی حق تلفی ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے او رنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں وعید منقول ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من فرمن میراث وارثہ قطع اللہ میراثہ من الجنۃ یوم القیمۃ۔ (ابن ماجہ: ۲۷۰۳)

ترجمہ: جو شخص اپنے وارث کی میراث سے بھاگے (کہ اس کو حصہ نہ ملے) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت میں سے اس کی میراث کو ختم فرما دیں گے۔

مندرجہ بالا روایت سے یہ بات واضح ہے کہ صدقہ و خیرات دینا، ٹرسٹ بنانا یا بہنوں اور بھائیوں کو اپنی خاص مملوکہ چیز میں سے دینا جائز عمل او رباعث ثواب ہے لیکن اگر اس میں اپنے کسی وارث کو جائیداد سے محروم کرنے یا اس کا حصہ گھٹانے یا بڑھانے کی نیت ہوئی تو یہ عمل گناہ اور وبال بن جائے گا جس کے متعلق حدیث میں وعید منقول ہے۔

سوال کے ساتھ منسلکہ فتویٰ میں جس نوعیت کا سوال تھا اس کے مطابق جواب دیا گیا تھا جبکہ موجودہ سوال میںبیان کردہ باتیں اگر درست اور حقیقت پر مبنی ہیں تو اس کی روسے مذکورہ خاتون کا عمل بے اعتدالی اور حق تلفی پر مبنی ہے، جس کی اصلاح کی کوشش ضرور ہونی چاہیے۔

ولوا عطی بعض ولدہ شیئاً دون البعض لزیادہ رشدہ لابأس بہ وان کانا سواء لاینبغی ان یفضل … ونقل ایضا عن المحیط یکرہ تفضیل بعض الاولاد علی البعض فی الھبۃ حالۃ الصحۃ الالزیادۃ فضل لہ فی الدین وان وھب مالہ کلہ لواحد جاز قضائً وھو اٰثم (البحر الرائق، ج : ۷، ص : ۲۸۸)
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :951