مسجد کا سامان مسجد سے باہر لے جاکر استعمال کرنا

سوال کا متن:

گذارش ہے کہ ہمارے محلے کی مسجد کے خطیب صاحب نے درج ذیل کام اپنے لیے جائز کیے ہوئے ہیں براہ کرم ان درج ذیل نکات کا دین کے پہلو سے جواب دے کر مشکور ہوں۔(۱)مسجد کا پنکھا مسجد کے مکان میں لے جاتے ہیں جب کہ وہاں پہلے ہی پنکھا موجود ہے۔(۲) امام صاحب فطرہ وصول کرتے ہیں۔(۳) قربانی کی کھالیں بھی لوگوں سے وصول کرتے ہیں۔(۴) مسجد کی موٹر سے گھر میں پانی بھرتے ہیں۔

جواب کا متن:

(۱)مسجد کا موقوفہ سامان مسجد سے باہر لے جا کر اپنی ضروریات میں استعمال کرنا ناجائز ہے لہذا پنکھا اگر مسجد کے لیے وقف ہے تو اسے امام مسجد کے مکان میں لے جانا اور استعمال کرنا درست نہیں۔

ولا یحمل الرجل سراج المسجد الی بیتہ ویحمل من بیتہ الی المسجد (عالمگیریۃ /۱: ۱۱۰) متولیٰ المسجد لیس لہ ان یحمل سراج المسجد الی بیتہ ولہ ان یحمل من البیت الی المسجد۔

(خلاصۃ الفتاوی / ۴ : ۴۲۳، امداد المفتین/ ص : ۲۸۱)

(۲)اگر امام صاحب مستحق زکوٰۃ ہیں (کہ ان کے پاس حاجاتِ اصلیہ سے زیادہ اتنا مال نہیں جو نصاب تک پہنچ جائے) تو ان کے لیے صدقہ ٔ فطر وصول کرنا جائز ہے بشرطیکہ وہ تنخواہ کے طور پر نہ ہو لیکن اگر امام صاحب مستحق زکوٰۃ نہیں تو اپنے لیے وہ صدقہ فطر وصول نہیں کر سکتے۔

ولا یجوزدفع الزکاۃ الی من یملک نصابا ای مال کان دنانیر او دراھم اوسوائم او عروضا للتجارۃ او لغیر التجارۃ فاضلاً عن حاجتہ الا صلیۃ فی جمیع السنۃ ھکذا فی الزاھدی والشرط ان یکون فاضلاً عن حاجتہ الاصلیۃ وھی مسکنہ واثاث مسکنہ وثیابہ وخادمہ ومرکبہ وسلاحہ ولا یشترط النماء اذ ھو شرط وجوب الزکاۃ لا الحرمان کذا فی الکافی (عالمگیریۃ/ ۱ : ۱۸۹) ومصرف ھذہ الصدقۃ ما ھو مصرف الزکاۃ (عالمگیریۃ / ۱: ۱۹۴)

(۳)اگر قربانی کی کھالیں لوگ امام صاحب کو مالک بنا کر دیتے ہیں تو امام صاحب کیلئے کھالیں لینا اور ان میں ہر قسم کا مالکانہ تصرف کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ لوگ امام صاحب کو کھالیں ان کے عمل پر بطور اجرت نہ دیتے ہوں لیکن امام صاحب کیلئے کھالوں کی بجائے ان کی قیمت وصول کرنے میں وہی تفصیل ہے جو جواب (۱) کے ذیل میں گزر چکی ہے کہ اگر امام صاحب مستحق زکوٰہ ہیں تو کھالوں کی قیمت اپنے لیے وصول کر سکتے ہیں ورنہ نہیں۔

(ماخذہ امداد الفتاویٰ / ۳ :۴۸۳)

ولا یعطی اجرۃ الجزار منھا شیئا والنھی عنہ نھی عن البیع لانہ فی معنی البیع لانہ یأخذہ بمقابلۃ عملہ فصار معاوضۃ کالبیع (البحرالرائق/ ۸ : ۷۸ا، الدر المختار/ ۶: ۳۲۸ الھدایۃ مع الفتح / ۸ : ۴۳۶- ۴۳۷، فتح القدیر/ ۸ : ۴۳۸) (فان بیع اللحم أوالجلدبہ) ای بمستھلک (او بدراھم تصدق بثمنہ)۔

(الدر المختار/ ۶: ۳۲۸)

(۴) اگر امام صاحب کو مسجد کا رہائشی مکان ملا ہوا ہے تو وہاں پانی کا انتظام کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اگر انتظامیہ کی طرف سے وہاں پانی کا انتظام نہ ہو تو امام صاحب کیلئے مسجد کی ٹینکی یا موٹر سے مسجد کے مکان میں پانی بھرنا درست ہے لیکن اگر انتظامیہ کی طرف پانی بھرنے کا انتظام ہو تو پھر مسجد کی موٹر استعمال کرنا درست نہیں۔

قال فی الدر: (ویبدأ من غلتہ بعمارتہ) ثم ما ھو اقرب بعمارتہ کامام مسجد مدرس مدرسۃ یعطون بقدر کفایتھم وفی الشامیۃ تحتہ ای فانتھت عمارتہ وفضل من الغلۃ شیء یبدأ بما ھو اقرب للعمارۃ وھو عمارتہ المعنویۃ التی ھی قیام شعائرہ قال فی الحاوی القدسی والذی یبدأ بہ من المعنویۃ التی ھی قیام شعائرہ قال فی الحاوی القدسی والذی یبدأ بہ من ارتفاع الوقف أی من غلتہ عمارتہ شرط الواقف أولا ثم ما ھو أقرب الی العمارۃ و اعم للمصلحۃ کالامام للمسجد والمدرس للمدرسۃ یصرف الیھم الی قدر کفایتھم (ص ۴، ۳۶۷) وان شرط الواقف قسمۃ الربح علی الجمیع بالحصۃ او جعل لکل قدرا وکان ماقدرہ للامام ونحوہ لا یکفیہ فیعطی قدر الکفایۃ لئلا یلزم تعطیل المسجد۔

(فتاوٰی شامیۃ / ۴: ۳۶۸)

ویدخل فی وقف المصالح قیم۔ امام خطیب والمؤذن یعبر۔

(الدر المختار ۴ : ۳۷۱)
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :975