مزارعت کی ایک صورت

سوال کا متن:

 مزارعت میں کاشتکار اور زمین کا مالک اسپرے،کھاد اور پانی میں شریک ہو تو یہ جائز ہے یا نہیں چاہے شرط لگائی ہو یا نہیں؟

جواب کا متن:

سوال میں  اس کا ذکر نہیں  کہ  بیل  یا ٹریکٹر اور بیج وغیرہ  کس کا ہوگا ، بہر حال مزارعت  کی مندرجہ  ذیل صورتیں  شرعاً جائز ہیں:

1- زمین اور بیج ایک کا ہو اور بیل (یا ٹریکٹر) ومحنت دوسرے کی ہو۔

2- زمین ایک کی ہو اور بیج اور بیل اور محنت دوسرے کی ہو۔

3- زمین اور بیل (یا ٹریکٹر)  اور  بیج ایک کا ہو اور محنت دوسرے کی ہو۔

اگر مذکورہ بالا صورتوں  میں  سے کوئی صورت  نہ  ہو تو مزارعت فاسد ہوجائے گی۔

لہذا مزارعت کی  ذکرکردہ  صورت  ( اسپرے،کھاد اور پانی   کا خرچہ مشترکہ طور پر رکھاگیا ہے)  شرعی اعتبار سے مزارعت کا یہ معاملہ درست نہیں  ہے،چونکہ یہ مذکورہ صورتوں میں سے نہیں ہے۔ہاں شرط کے بغیر خود دےدے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے

فتاوی شامی میں ہے:

"(دفع ) رجل ( أرضه إلى آخر على أن يزرعها بنفسه وبقره والبذر بينهما نصفان والخارج بينهما كذلك فعملا على هذا فالمزارعة فاسدة، ويكون الخارج بينهما نصفين، وليس للعامل على رب الأرض أجر )؛ لشركته فيه (و ) العامل ( يجب عليه أجر نصف الأرض لصاحبها )؛ لفساد العقد ( وكذا لو كان البذر ثلثاه من أحدهما وثلثه من الآخر والرابع بينهما ) أو ( على قدر بذرهما ) نصفين فهو فاسد أيضاً؛ لاشتراطه الإعارة في المزارعة."

(كتاب المزارعة، ج:6، ص:281، ط:ايج ايم سعيد)

الهداية في شرح بداية المبتدي میں ہے:

"قال: "وهي عندهما على أربعة أوجه: إن كانت الأرض والبذر لواحد والبقر والعمل لواحد جازت المزارعة" لأن البقر آلة العمل فصار كما إذا استأجر خياطا ليخيط بإبرة الخياط، "وإن كان الأرض لواحد والعمل والبقر والبذر لواحد جازت" لأنه استئجار الأرض ببعض معلوم من الخارج فيجوز كما إذا استأجرها بدراهم معلومة "وإن كانت الأرض والبذر والبقر لواحد والعمل من آخر جازت" لأنه استأجره للعمل بآلة المستأجر فصار كما إذا استأجر خياطا ليخيط ثوبه بإبرته أو طيانا ليطين بمره "وإن كانت الأرض والبقر لواحد والبذر والعمل لآخر فهي باطلة" وهذا الذي ذكره ظاهر الرواية."

(كتاب المزارعة، ج:4، ص:338، ط:داراحياءالتراث العربى)

فقط والله أعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144311100785
تاریخ اجراء :11-06-2022