عورت سے مستقل ناجائز تعلقات رکھنے والے شخص سے معاشرتی بائیکاٹ کرنا اور اس کا میراث میں حصے کا حکم

سوال کا متن:

ایک شخص جس کے کسی عورت کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں اور اس عورت سے اس کی اولاد بھی ہے ۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اس مرد کے والدین اور بھائیوں رشتہ داروں کے لیے شرعاً کیا حکم ہے ؟  آیا والد کی میراث میں سے اس کو حصہ ملے گا یا نہیں؟  اگر والدین رشتہ دار اس کے  ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق رکھیں تو ان کے بارے میں شرعًا کیا حکم ہے؟  لین دین اور معاملات کے بارے میں  کیا والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ( بصورت تعلقات  مرد  ھذا کے ساتھ )  لین دین کرنا جائز ہے یا ناجائز ؟

جواب کا متن:

صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ شخص  کے گھر والوں کو چاہیے کہ  وہ اس کو حکمت وبصیرت کے ساتھ سمجھائیں، اور شریعت کی تعلیمات سے آگاہ کریں  اور   اگر شرعًا ممکن ہو تو ان کے اس ناجائز رشتہ کو نکاح کے ذریعے جائز رشتہ میں تبدیل کرانے کی کوشش کریں، تاکہ وہ لوگ اس گناہ سے بچ سکیں،  لیکن کسی بھی صورت میںاگر مذکورہ افراد اپنے اس فعل پر نادم ہوکر توبہ نہیں کرتے اور آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کا عزم نہیں کرتے اور ان کے بائیکاٹ سے ان کی اصلاح کی امید ہو  تو ان کے ساتھ معاشرتی تعلقات ختم کرکے بائیکاٹ کیا جاسکتا ہے؛  تاکہ ان کی اصلاح ہو، اور اگر وہ پھر توبہ کرلیتے ہیں اورآئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کا عزم کرتے ہیں تو  پھر ان سے معاشرتی بائیکاٹ نہ کیا جائے۔

باقی میراث ایک شرعی اور لازمی حق ہے، اگر کوئی میراث سے رکاوٹ کا کوئی شرعی سبب موجود نہ ہو،  مثلًا کافر ہونا، وارث کو قتل کرنا  وغیرہ تو ایسا شخص میراث کا حق دار ہوگا۔

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"عن أبي أيوب الأنصاري -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «و لايحل للرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض

هذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام ". متفق عليه.»

... قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب على أخيه ثلاث ليال لقلته، و لايجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالى، فيجوز فوق ذلك. وفي حاشية السيوطي على الموطأ، قال ابن عبد البر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك ورفيقيه، حيث أمر صلى الله عليه وسلم أصحابه بهجرهم، يعني زيادة على ثلاث إلى أن بلغ  خمسين يوما. قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق."

(8/ 3146،  کتاب الاداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، الفصل الاول، ط: دارالفکر)

عارضۃ الاحوذی میں ہے:

"و أما إن كانت الهجرة لأمر أنكر عليه من الدين كمعصية فعلها أو بدعة اعتقدها فليهجرهحتى  ينزع عن فعله وعقده  فقد أذن النبي صلي الله عليه وسلم فى هجران الثلاثة الذين خلفوا خمسين  ليلة حتى صحت توبتهم عند الله  فاعلمه فعاد إليه.

(عارضۃ الاحوذی لابن العربیالمالکی (8/116) ابواب البر والصلۃ،ط: دارالکتب العلمیة)

فقط والله اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144112201120
تاریخ اجراء :08-08-2020