شوہر کے نان نفقہ نہ دینے کی وجہ سے فسخ نکاح کا حکم

سوال کا متن:

میری شادی  تقریباً پانچ سال پہلے عبداللہ نام کے لڑکے سے ہوئی تھی،چندمہینے تک اچھی زندگی گزری لیکن بعد میں اس نے نشہ وغیرہ شروع کیا  اور اس کے لیے گھر کا سامان تک فروخت کرنے لگےاور نان نفقہ دینا بھی چھوڑدیا  تو میں مجبور ہوکر ایک فیکٹری میں بھرتی ہوگئی،میری ایک بیٹی بھی ہے،الغرض وہ گزشتہ چار سال سے میرے ساتھ نہیں رہتا،اب میں چاہتی ہوں کہ اس سے جدائی حاصل کرکے کسی دوسری جگہ شادی کرسکوں تاکہ میں عنداللہ گناہ گار نہ بنوں،لہذا آپ حضرات شرعی نقطہ نظر سے میری راہ نمائی فرمائیں۔

جواب کا متن:

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا شوہر اگر واقعۃً نشہ کا عادی ہے اور نان ونفقہ ادا نہیں کرتا تو اس معاملے کے حل کے لیے اولاً تو سائلہ کو چاہیے کہ دونوں خاندانوں کے  سمجھ دار اور دیانت دار بڑوں کوبیچ میں ڈال کرافہام وتفہیم کے ساتھ اس مسئلہ کوحل  کرانےکی کوشش کرے، اگر کوشش کے باوجود بھی مصالحت کی کوئی راہ نہ بن پائے ،اور شوہر نہ گھر بسانا چاہتا ہو  ،نہ نان ونفقہ دیتا ہو ،اور سائلہ کےلیے اسی حالت میں عفت وپاک دامنی کے ساتھ  رہنا مشکل ہو،  جس کی وجہ سے جدائی ناگزیرہو تو ایسی صورت میں سائلہ اپنے شوہرسے طلاق کا مطالبہ کرے اور  شوہر کو بھی چاہیے کہ معاملے کو لٹکاکر رکھنے کے بجائے اپنی بیوی کو عزت سے طلاق دے کر آزاد کردے، معاملہ کو لٹکاکر رکھنا اور بیوی کو اذیت دینا شوہر کے  لیے جائز نہیں ، تاہم اگرشوہرطلاق نہ دےتوسائلہ اپنے مہرکی معافی کے عوض شوہرکوخلع  لیے آمادہ کرے ۔

اور  اگر نباہ کی بھی  کوئی صورت نہ بن پائے اور شوہر طلاق بھی نہ دے اور نہ ہی خلع پر راضی ہو، تو  سائلہ  کسی مسلمان جج کی عدالت میں نان نفقہ نہ دینے اور حقوقِ زوجیت اد ا نہ کرنے کے بنیاد پرفسخِ نکاح کامقدمہ دائرکرے، اس کے بعد عدالت میں  دو شرعی گواہوں کے ذریعے اپنے نکاح کوثابت کرے، اس کے بعداپنے شوہرکے تعنت یعنی نان ونفقہ نہ دینے اورحقوق زوجیت ادا نہ کرنے کودوگواہوں کے ذریعے ثابت کرے کہ شوہرنہ گھربسانے پرآمادہ ہے،نہ ہی نان ونفقہ  دیتاہے اورنہ ہی خود اس کے پاس اس کاانتظام ہے، اس کے بعدعدالت شوہرکو حاضرہونے کاحکم دے گی، اگرشوہرعدالت میں حاضرہوکرنان ونفقہ دینے اورگھربسانےپرآمادہ ہوجائے تو فبہا، اور اگر وہ حاضرنہ ہویاحاضرہوکرحقوقِ زوجیت ادا کرنے اورنان ونفقہ دینے  کے لیے تیار نہ ہو تو ان دونوں صورتوں میں عدالت کونکاح فسخ کرنے کااختیار حاصل ہوگا ، عدالت کے فسخِ نکاح کا فیصلہ سنا نے کے بعد سائلہ اپنی   عدت (تین ماہواریاں) گزارکر دوسری جگہ نکاح کرسکے گی،لیکن سائلہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی رضامندی کے بغیر عدالت سےیکطرفہ خلع حاصل کرے،اگر اس نے عدالت سے یکطرفہ خلع کی ڈگری حاصل  کر بھی لی تو یہ خلع شرعاً معتبر نہیں ہوگا،سائلہ کا نکاح اپنے شوہر سے ختم نہیں ہوگا۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَٱبْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهٖ وَحَكَمًامِّنْ أَهْلِهَآ إِنْ يُّرِيْدَآ إِصْلَاحًا يُّوَفِّقِ ٱللّٰهُ بَيْنَهُمَآۗ إِنَّ ٱللّٰهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيْرًا (٣٥)(سورة النساء)".

ترجمہ:اور اگر تم اوپر والوں کو ان دونوں میاں بیوی میں کشاکش کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتاہومرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتاہو عورت کے خاندان سے بھیجو ،اگر ان دونوں آدمیوں کو اصلاح منظور ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان میاں بی بی کے درمیان اتفاق پیدا فرمادیں گے،بے شک اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبر والے ہیں ۔                                  

(بیان القرآن:ج،1:ص:355،ط:رحمانیہ)

ایک دوسری آیت میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ ٱللّٰهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا ٱفْتَدَتْ بِهِ.(البقرة: 229)".

ترجمہ: سو اگر تم لوگوں  کو یہ احتمال ہو کہ دونوں ضوابط خداوندی کو قائم نہ کرسکیں گے تو کوئی گناہ نہ ہوگااس(مال کے دینے)میں جس کو دے کر عورت  اپنی جان چھڑالے۔

(بیان القرآن:ج،1:ص،162،ط:رحمانیہ)

بدائع الصنائع ميں  ہے:

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول ؛ لأنه عقد علي الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول".

(کتاب الطلاق، فصل واماالذی یرجع الی المرأۃ، ج:3، ص:145، ط:سعيد)

 الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف  ميں ہے:

"قوله (فإن ‌امتنع ‌من ‌الحضور: سمعت البينة، وحكم بها في إحدى الروايتين) . وهو المذهب. اختاره أبو الخطاب، والشريف أبو جعفر. وقدمه في الفروع. وهو ظاهر ما جزم به في الرعاية الصغرى، والحاوي الصغير".

(باب طريق الحكم وصفته، ج:11، ص:238، ط:داراحیاء)

حیلہ ناجزۃ میں ہے :

"والمتعنت الممتنع عن الإنفاق  ففي مجموع الأمیر ما نصه : إن منعھا نفقة الحال فلها القیام فإن لم یثبت عسرہ أنفق أو طلق و إلا طلق علیه، قال محشیه : قوله وإلا طلق علیه أي طلق علیه الحاکم من غیر تلوم... إلي أن قال: وإن تطوع بالنفقة قریب أو أجنبي فقال ابن القاسم: لها أن تفارق لأن الفراق قد وجب لها،  وقال ابن عبدالرحمن:  لا مقال لها لأن سبب الفراق  هو عدم النفقة قد انتهی وهو الذي تقضیه المدونة؛ کما قال ابن المناصب، انظر الحطاب، انتهی."

 (ملخص از حیله ناجزہ، صفحه نمبر73،ط: دار الإشاعت)

فقط والله اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144307100068
تاریخ اجراء :05-02-2022