طلاق كا خيال آنے طلاق كا حكم

سوال کا متن:

 میں ایک پشتون قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں، حال ہی میں میری منگنی ہوچکی ہے، حق ِمہر نولاکھ روپے  ہے ،میں سرکاری ملازم ہوں ،ہر ماہ تنخواہ والد صاحب کو دیتا ہوں، ایک دن ذہن  میں ایک سوچ آئی  کہ والد صاحب کو بتاؤں گا کہ میں اس وقت تک آپ کو تنخواہ نہیں دوں گا، جب تک میں حقِ مہر ادا نہ کروں ، مجھے ایسا لگا کہ مجھ سے سوچ میں طلاق کا لفظ استعمال ہوا، حالاں کہ میرا یہ ارادہ بالکل نہیں تھا ،نہ  ہی میں نے زبان سے طلاق کا لفظ ادا کیا ،اب اگر میں حقِ مہر ادا کرنے سے پہلے والد صاحب کو تنخوا ہ دو ں تو کیاطلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

جواب کا متن:

صورتِ مسئولہ میں  سائل کا بیان اگر واقع درست ہے کہ اس نے طلاق کا لفظ زبان سے ادا نہیں کیا تو صرف طلاق کے متعلق سوچنے یا اس کا خیال آنے سے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ،دونوں کا نکاح برقرار ہے، والد کو تنخواہ دو،بیوی کو طلاق نہیں ہو گی۔

درمختار میں ہے:

"و ركنه لفظ مخصوص."

(کتاب الطلاق :3/ 230،ط:سعید )

فقط والله أعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144307100725
تاریخ اجراء :12-02-2022