دو تین لاکھ روپے ایڈوانس رکھوانے کی صورت میں زمین سالانہ دس ہزار روپے کرائے پر دینے کا حکم

سوال کا متن:

ہمارے یہاں زمینوں کا اجارہ اس طرح ہوتا ہے مثلا زمین کو دو یا تین سال اجارہ پر دیتے ہیں اور ایڈوانس میں دو تین لاکھ روپیہ لیا جاتا ہے اور سال کا اجارہ دس ہزار مقرر کر دیتے ہیں، آیا یہ معاملہ درست ہے یا نہیں؟ اگر درست نہیں تو درست صورت کیاہوگی ؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ ایڈوانس زیادہ جمع کرانے کی صورت میں مروجہ کرایہ میں کمی کرنا سود کی اقسام میں سے ایک قسم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے؛  اس لیے کہ ایڈوانس رقم درحقیقت مالکِ  مکان کے ذمہ قرض ہوتی ہے اور قرض کے عوض میں کسی قسم کا مشروط نفع اٹھانا سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے،لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں دو ، تین لاکھ روپے ایڈوانس دے کر زمین سال بھر کے  لیے دس ہزار روپے کے عوض کرائے پر حاصل کرنے کا معاملہ درست نہیں ہے؛ کیوں کہ سال بھر کا کرایہ دس ہزار روپے مقرر کرنا بظاہر سال بھر کے مروجہ کرائے کی مقدار سے کم ہے اور یہ کمی تین لاکھ ایڈوانس (قرض) کی وجہ سے کی جارہی ہے، اس  لیے زمین کے مالک کے  لیے قرض وصول کرنے کی بنیاد پر اپنی زمین قرض خواہ کو کم کراے پر دینا سود پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔

سو اگر یوں  طے کیا گیا کہ کرایہ دار  زیادہ ایڈوانس (قرض) دے گا تو کرایہ کم کیا جائے گا تو یہ معاملہ  سود کی اقسام میں سے ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہوگا۔  ہاں  ڈپازٹ کی رقم معمول کے مطابق ہو  یا بالکل بھی نہ ہو اور کرایہ بھی کم ہو اور کرایہ دار یک مشت ادا کردے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

صحيح البخاري (5/ 38)

"عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَلَا تَجِيءُ فَأُطْعِمَكَ سَوِيقًا وَتَمْرًا وَتَدْخُلَ فِي بَيْتٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّكَ بِأَرْضٍ الرِّبَا بِهَا فَاشٍ، إِذَا كَانَ لَكَ عَلَى رَجُلٍ حَقٌّ فَأَهْدَى إِلَيْكَ حِمْلَ تِبْنٍ أَوْ حِمْلَ شَعِيرٍ أَوْ حِمْلَ قَتٍّ فَلَا تَأْخُذْهُ فَإِنَّهُ رِبًا".( صحیح البخاری 3814)

ترجمہ: سعید بن ابی بردہ اپنے والد  سے روایت کرتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ حاضرہوا تو میں نے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ  سے  ملاقات  کی ، انہوں نے کہا:  کیا آپ  (ہمارے پاس) نہیں آئیں گے  کہ  میں آپ کو  ستواورکھجورکھلاؤں اورآپ ایک ( باعظمت ) مکان میں داخل ہوں (جس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے گئے تھے)  پھر آپ نے فرمایا: تمہارا قیام ایک ایسے ملک میں ہے جہاں سودی معاملات بہت عام ہیں، اگر تمہارا کسی شخص پر کوئی حق ہو اورپھروہ تمہیں ایک تنکے یاجوکے ایک دانے یا ایک گھاس کے برابربھی ہدیہ دے تو اسے قبول نہ کرنا؛ کیوں کہ وہ بھی سود ہے۔

مصنف ابن أبي شيبة (4/ 327):

"عن إبراهيم، قال: «كل قرض جر منفعة، فهو ربا»".

النتف فی الفتاوی میں ہے:

أنواع الربا: وأما الربا فهو علی ثلاثة أوجه:أحدها في القروض، والثاني في الدیون، والثالث في الرهون. الربا في القروض: فأما في القروض فهو علی وجهین:أحدهما أن یقرض عشرة دراهم بأحد عشر درهماً أو باثني عشر ونحوها. والآخر أن یجر إلی نفسه منفعةً بذلك القرض، أو تجر إلیه وهو أن یبیعه المستقرض شيئا بأرخص مما یباع أو یوٴجره أو یهبه…، ولو لم یکن سبب ذلك (هذا ) القرض لما کان (ذلك) الفعل، فإن ذلك رباً، وعلی ذلک قول إبراهیم النخعي: کل دین جر منفعةً لا خیر فیه.

(النتف في الفتاوی ، ص: ٤٨٤، ٤٨٥)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63):

"وفي الخانية: رجل استقرض دراهم وأسكن المقرض في داره، قالوا: يجب أجر المثل على المقرض؛ لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضاً عن منفعة القرض لا مجاناً، وكذا لو أخذ المقرض من المستقرض حماراً ليستعمله إلى أن يرد عليه الدراهم اهـ وهذه كثيرة الوقوع، والله - تعالى - أعلم".

فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144212201312
تاریخ اجراء :26-07-2021