ماں کے مطالبے پر بیوی کو طلاق دینا

سوال کا متن:

سوال عرض ہے کہ میں اور میری بیوی گزشتہ 13 سال سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہیں اور اللہ پاک کے فضل و کرم سے 3 بچوں کے والدین ہیں ، میرے گھر والوں خصوصاً  والدہ اور بہنوں اور ایک چھوٹے  بھائی نے ہم میاں بیوی کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے، جب کہ میں اور میری بیوی اب تک ان کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں اور اس کے بر عکس یہ سب ہماری ازدواجی زندگی میں مداخلت پر مداخلت کرتےرہتے ہیں، ہر وقت بے بنیاد باتوں پر شور شرابہ لڑائی جھگڑا کرتے رہتے ہیں، جس سے میرے  تینوں بچے اور  بیوی اور میں خود بری طرح ذہنی اذیت کا شکار ہوں، اب میری والدہ مجھ سے کہتی ہیں کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور اس کے حق مہر کی رقم جو مبلغ 50000 روپے ہے، مجھ سے لے کر اس کو گھر  سے فارغ کردو۔

اللہ کے فضل و کرم سے  میں میری بیوی اور میرے بچے ایک ساتھ پوری زندگی جینا چاہتے ہیں اور میں اپنی بیوی سے ہر طرح سے مطمئن ہوں، لہٰذا میں اپنی والدہ کا یہ کہنا کسی صورت نہیں مان سکتا ، جو کہ اللہ پاک کی نظر میں جائز کاموں میں سب سے نا پسندیدہ عمل ہے اور اس کا گناہ میں اپنے سر کبھی بھی نہیں لوں گا۔

اب میں نے یہ فیصلہ کیا ہے اور اس پر عمل درآمد کیا ہے، میرا فیصلہ یہ ہے کہ میں اپنے والدین کے حقوق کبھی نہیں چھوڑوں گا، آخری سانس تک میرا فیصلہ یہ ہے کہ اپنی بیوی ، بچوں اور خود کو اس اذیت زدہ ماحول سے نکال کر لے جاؤں گا، تاکہ ہم ایک خوشگوار زندگی گزار سکیں، تو اس وجہ  سے میں نے ایک گھر کرائے پر لے لیا ہے اور اس میں اپنی بقایا زندگی خوش وخرم گزارنا چاہتا ہوں،  لہٰذا اپ مفتیان کرام میری راہ نمائی فرمادیجیے۔

جواب کا متن:

واضح رہے کہ  اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز  طلاق ہے اور  کسی شرعی عذر کے بغیربیوی کو طلاق دینا انتہائی نامناسب اور قبیح فعل ہے اور اگر  والدہ  کسی  شرعی  وجہ  کے بغیر طلاق کا مطالبہ کریں تو ان کا بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا بھی درست نہیں ہے  اور  بلا وجہ مطالبہ کرنے کی صورت میں بیوی کو طلاق دینا بھی درست نہیں ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  اگر سائل کی والدہ کا بہو کو طلاق دینے کا مطالبہ کسی شرعی عذر کے  بغیر ہے، تو  سائل کا اپنی بیوی کوطلاق دینا اور اسے چھوڑنا اس کی حق تلفی ہے، لہٰذا سائل کو چاہیے کہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دے اور والدین کے حقوق کی بھی رعایت رکھتے ہوئے زندگی گزارے، بہتر یہ ہے کہ اپنی والدہ، بھائی بہنوں اور بیوی کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرے اور ایک ساتھ زندگی گزارے، لیکن اگر ایسا ممکن نہیں تو سائل کے لیے گنجائش ہے کہ وہ  اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے علیحدہ ہوجائے، بہتر ہے کہ والدہ کو اعتماد میں لے کر ایسا کرے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

" حدثنا كثير بن عبيد الحمصي قال: حدثنا محمد بن خالد، عن عبيد الله بن الوليد الوصافي، عن محارب بن دثار، عن عبد الله بن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌أبغض ‌الحلال إلى الله الطلاق»."

(كتاب الطلاق، ج:1، ص:650، ط:دار إحياء الكتب العربية)

حديث شریف میں ہے:

"عن معاذ قال: «أوصاني رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بعشر كلمات، قال: " لا تشرك بالله شيئا، وإن قتلت وحرقت، ولا تعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك، ولا تتركن صلاة مكتوبة متعمدا؛ فإن من ترك صلاة مكتوبة متعمدا فقد برئت منه ذمة الله، ولا تشربن خمرا فإنه رأس كل فاحشة، وإياك والمعصية؛ فإن بالمعصية حل سخط الله، وإياك والفرار من الزحف، وإن هلك الناس، وإذا أصاب الناس موت وأنت فيهم فاثبت، (أنفق على عيالك من طولك، ولا ترفع عنهم عصاك أدبا وأخفهم في الله» ". رواه أحمد."

اس  حدیث کی شرح میں ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"(ولا تعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ( «وإن أمراك أن تخرج من أهلك»  أي: امرأتك أو جاريتك، أو عبدك بالطلاق أو البيع أو العتق أو غيرها (ومالك) : بالتصرف في مرضاتهما. قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضا أي: لا تخالف واحدا منهما، وإن غلا في شيء أمرك به، وإن كان فراق زوجة أو هبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلا يلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاء شديدا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلا يكلفه لأجلهما؛ إذ من شأن شفقتهما أنهما لو تحققا ذلك لم يأمراه به فإلزامهما له مع ذلك حمق منهما، ولا يلتفت إليه، وكذلك إخراج ماله."

(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الإیمان، ج:1، ص:132، ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144312100414
تاریخ اجراء :09-07-2022