والدہ اور بیوی کے حقوق

سوال کا متن:

کیا شوہر کےلیے پہلے ماں اور بعد میں بیوی ہے؟میری ازدواجی زندگی مسائل کا شکار ہے اور جب حالات بہتر ہوئے تو ساس کی مداخلت کی وجہ سے گھر کا ماحول خراب ہو رہا ہے ۔مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں اپنے ازدواجی رشتے کو بہتر کروں یا ساس کے بےجا طعنے برداشت کروں جو کہ بہت دل آزاری کرتے ہیں ، اسی وجہ سے میں نے ان کے ساتھ زیادہ بات کرنا چھوڑ دی ہے ۔

جواب کا متن:

شریعتِ مطہرہ نے ہر انسان کے   حقوق کو بیان کیاہے ،والدین کے اپنے حقوق ہیں اور بیوی کے اپنے حقوق ہیں،ہر ایک کے حق کا خیال رکھنا ضروری ہے ،والدین کی خدمت کرنی چاہیے جس سے وہ خوش ہوں اور کوئی ایسا کام نہ ہو جس سے ان کو تکلیف ہو،اور بیوی کی ضروریات پوری کرنااور اس کو وقت دینا یہ اس کےحقوق میں سے ہے۔

اللہ تعالیٰ نے نسبی رشتے کی طرح سسرالی رشتے کو بھی اپنی نعمت شمار فرمایا ہے، نکاح کی برکت سے اللہ رب العزت  نے لڑکا اور لڑکی کو ساس سسر کی شکل میں ايك اور  ماں باپ عطا کیے ہیں، گو کہ بعض حقوق میں حقیقی والدین اور ساس سسر کے حقوق میں فرق ہے، تاہم شریعتِ  مطہرہ نے ان کے ساتھ اخلاقی اعتبار سے حسنِ سلوک کا پابند کیا ہے،  نیز مسلمان معاشرے  کو آپس میں محبت و الفت کے ساتھ رہنے کا حکم دیا ہے۔

میاں بیوی میں سے ہر ایک کو اخلاقاً ایک دوسرے کے بڑوں کے ساتھ حسنِ سلوک و احترام کرنے کا پابند کیا ہے، اگر وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنے حقیقی والدین کی طرح اپنے ساس سسر کی عزت و احترام  کریں تو یہ ان کے لیے دنیا میں باعثِ خیر و برکت اور آخرت میں باعثِ اجر و ثواب ہوگا، اور اچھے اخلاق کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اسی طرح ساس سسر بھی اپنی بہو، داماد پر اپنی حقیقی بیٹی، بیٹے کی طرح شفقت کریں، ان کے ساتھ اپني بيٹي اور بيٹے كي طرح پیار و محبت سے پیش آئیں، ہر ایک دوسرے کے حق کی ادائیگی کا اہتمام کرے تو اِن شاء اللہ گھر کا ماحول ٹھیک ہوجائےگا۔

لہذا صورت مسؤلہ میں ساس کا بے جا دامادکو طعنے دینا جس سے اس کو اذیت  پہنچے ناجائز اور حرام ہے،حدیث شریف میں ہے کہ کامل مسلمان وہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو،اور داماد کا ساس کے ساتھ قطع تعلقی کرنا یہ بھی صحیح نہیں ہے ،لہذا داماد  ساس سسر کو اپنے والدین کی طرح سمجھتے ہوئے ان کا دل سے احترام کرے اور قطع تعلقی سے اجتناب کرے۔

جہاں تک بات ہے کہ والدین کے حقوق مقدم رکھے جائیں یا بیوی کے تو اس میں یہ ذہن نشین رکھنا چاہیےکہ اللہ تعالی نے دونوں کو الگ الگ رتبہ اور حیثیت دی ہے اور دونوں کو الگ الگ مقام عطاء فرمایاہے،لہذا شوہر کو چاہیے کہ وہ والدین اور بیوی سے ہر ایک كے حقوق ادا کرے تاکہ کسی قسم کے ٹکڑاؤ اور تنازع کی صورت پیدا نہ ہو،تاہم اگر کسی موقع پر ٹکڑاؤ کی کیفیت پیدا ہوتو بیوی کو اعتماد میں لے کروالدہ کو خوش کر ے تاکہ مخالفت کی فضاپیدا نہ ہو۔

حدیث پاک  میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» . رواه الترمذي".

(مشکاۃ المصابیح، 2/281،  باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)

ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ  وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔

(مظاہر حق، 3/366، ط؛  دارالاشاعت)

حدیث پاک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي".

(مشکاۃ المصابیح، 2/281،  باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)

ترجمہ:رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں  بہترین ہوں۔

(مظاہر حق، 3/365، ط؛  دارالاشاعت)

حدیث پاک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي  أبواب الجنة شاءت» . رواه أبو نعيم في الحلية".

(مشکاۃ المصابیح، 2/281،  باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)

ترجمہ:  حضرت انس  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جس عورت نے  (اپنی پاکی کے  دنوں میں پابندی کے ساتھ) پانچوں وقت کی نماز پڑھی،  رمضان کے  (ادا اور قضا) روزے رکھے،  اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی  اور اپنے خاوند  کی فرماں برداری کی  تو (اس عورت کے لیے یہ بشارت ہےکہ) وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔

(مظاہر حق، 3/366، ط: دارالاشاعت)

حدیث پاک میں ہے:

"عن أبي أمامة، أن رجلا قال: يا رسول الله، ما حق الوالدين على ولدهما؟ قال: «هما جنتك ونارك."

(سنن ابن ماجه ،ج: 2، ص: 1208 ،كتاب الأدب، باب برالوالدين، ط: دارإحياء الكتب العربية)

ترجمہ:"ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا : اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ دونوں تیری جنت یا دوزخ ہیں" یعنی ان کی اطاعت و خدمت جنت میں لے جاتی ہے اور ان کے ساتھ بدسلوکی جہنم میں لے جاتی ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رجل: يا رسول الله! من أحق الناس بحسن الصحبة؟ قال: "أمك" ثم أمك. ثم أمك. ثم أبوك. ثم أدناك أدناك."

( صحيح مسلم،كتاب البر والصلة و الآداب، باب برالوالدين و أيهما أحق به، ج: 3، ص: 574 ،ط: مكتبة البشرى)

ترجمہ:" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ بہتر سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟فرمایاتمہاری ماں ،پھر تمہاری ماں ،پھر تمہاری ماں پھر تمہارا باپ،پھر جو تم سے (رشتہ داری میں )قریب ہو ،پھر جو تم سے قریب ہو۔"

(تحفۃ المنعم،ج: 7،ص: 574،ط: مکتبہ ایمان ویقین)

حدیث  شریف میں ہے:

"وعن عائشة رضي الله عنها قالت: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌أي ‌الناس ‌أعظم ‌حقا ‌على ‌المرأة قال: زوجها قلت: فأي الناس أعظم حقا على الرجل قال: أمه."

(الترغيب و الترهيب، كتاب النكاح وما يتعلق به، ج: 3، ص: 34، ط: سعيد)

ترجمہ:"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا  سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ عورت پر لوگوں میں سب سے زیاہ حق کس کا ہے ،تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: اس کے شوہر کا ،پھر میں نے پوچھا کہ مرد پر لوگوں میں سب سے زیادہ حق کس کا ہے تو آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ اس کی ماں کا"۔

فقط والله اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144310101539
تاریخ اجراء :31-05-2022