منی اور مکہ میں اقامت کی نیت کے احکام

سوال کا متن:

 حج میں ایک قربانی دم شکر ہے اور ایک سنت ابراہیمی واجب صاحب استطاعت پر ،حج کے موقع پر اگر ہم مقیم ہیں 15 دن سے زیادہ مکہ میں حج سے پہلے آتے ہیں مطلب 8 ذی الحجہ سے پہلے ہمارے مکہ میں 15 دن پورے ہوتے ہیں تو ہم قربانی کریں گے اور نمازیں پوری پڑھیں گے اس کا جواب دیں

  8ذی الحجہ سے پہلے ہمارے مکہ میں 6 یا 8 دن ہو گئے ہیں اور 8 دن بعد 8 ذی الحجہ شروع ہو گیا ہے اور ہم منی روانہ ہو گئے ہیں تو اب نماز پوری پڑھیں گے اور قربانی کریں گے یا نہیں؟ اسی میں ایک سوال یہ ہے کہ میں نے کچھ علماء کرام سے سنا ہے کہ اگر آپ کے 8 ذی الحجہ  سے پہلے مکہ میں 15 دن پورے ہو گئے ہوں اور 8 ذی الحجہ  کو آپ حج کا سفر شروع کریں منی کے لیے تو یہ سفر سفر میں شمار ہوتا ہے حالاں کہ مکہ اور منی کا فاصلہ صرف 6/7 کلو میٹر ہے تو جناب نہایت ہی مؤدبانہ گزارش ہے کہ اس بارے میں مکمل احادیث کی روشنی میں تفصیل سے آگاہ کر دیں

جواب کا متن:

اگر منیٰ کے لیے روانگی سے پہلے مکہ مکرمہ میں کسی حاجی کا قیام پندرہ دن یا اس سے زیادہ بن رہا ہو تو وہ  مکہ مکرمہ، منی، مزدلفہ اور عرفات میں بھی مقیم شمار ہوگا اور نماز میں اِتمام کرے گا، اور اگر صاحبِ حیثیت ہو تو قربانی بھی اس پر واجب ہوگی۔لہذا کسی صاحب کا یہ کہنا کہ مکہ میں مقیم ہوں اور منی کی طرف نکلے تو یہ سفر شرعی ہوگا ، درست نہیں 

 اور اگر منیٰ روانگی تک مکہ مکرمہ میں اس کا قیام پندرہ دن نہ بنتا ہو تو وہ مکہ مکرمہ میں بھی مسافر ہوگا اور منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں بھی مسافر ہوگا، کیوں کہ منی،عرفات، مزدلفہ حدودِ مکّہ سے خارج ہیں،  اس لیے یہ مستقل مواضع شمار ہوں گے، ان سب میں اقامت کے دنوں کو جمع نہیں کیا جائے گا۔ مسافر ہونے کی صورت میں اگر امامت کرواتاہے یا تنہا نماز پڑھتاہے تو چار رکعات والی فرض نماز میں قصر کرے گا۔ اور سفر کی وجہ سے عید الاضحٰی کی قربانی واجب نہیں ہوگی، البتہ نفلی طور پر کرنا چاہے تو کرسکتاہے۔ 

لہذا  صورتِ  مسئولہ میں اگر سائل  ذوالحجہ کا مہینہ داخل ہونے کے بعد مکہ مکرمہ پہنچیں تو سائل   مسافر شمار ہوگا، اور سائل  پر قربانی واجب نہیں ہوگی، تاہم اگر سائل قربانی کریں تو باعثِ اجر ہوگا۔  نیز انفرادی نماز ادا کرنے کی صورت میں یا تمام مسافروں کی جماعت کی صورت میں ایسے افراد قصر نماز ادا کریں گے۔ اور مقیم امام کی اقتدا میں یہ مکمل نماز ادا کریں، اوراگر منی جانے سے پہلے مکہ مکرمہ میں پندرہ دن یا اس سے زائد ہو گئے ہوں تو مقیم شمار ہوں گے اور مقیم والے  احکام ان پر لاگو ہوں گے۔ 

واضح رہے کہ اگر یہ افراد ’’حجِ تمتع‘‘ یا ’’حجِ قران‘‘  ادا کررہے ہوں تو ان پر دمِ شکر  (حج کی قربانی) لازم ہوگا۔ مسافر ہونے کی وجہ سے وہ قربانی ساقط ہوگی جو مقیم صاحبِ حیثیت پر بقرہ عید کے دنوں میں واجب ہوتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أو نوى فيه لكن (بموضعين مستقلين كمكة ومنى) فلو دخل الحاج مكة أيام العشر لم تصح نيته لأنه يخرج إلى منى وعرفة فصار كنية الإقامة في غير موضعها وبعد عوده من منى تصح الخ

(قوله فلو دخل إلخ) هو ضد مسألة دخول الحاج الشام فإنه يصير مقيما حكما وإن لم ينو الإقامة وهذا مسافر حكما وإن نوى الإقامة لعدم انقضاء سفره ما دام عازما على الخروج  قبل خمسة عشر يوما أفاده الرحمتي."

(کتاب الصلوۃ ، باب صلوۃ المسافر جلد ۲ ص : ۱۲۶ ط : دارالفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وذكر في كتاب المناسك أن الحاج إذا دخل مكة في أيام العشر ونوى الإقامة خمسة عشر يوما أو دخل قبل أيام العشر لكن بقي إلى يوم التروية أقل من خمسة عشر يوما ونوى الإقامة لا يصح؛ لأنه لا بد له من الخروج إلى عرفات فلا تتحقق نية إقامته خمسة عشر يوما فلا يصح."

(کتاب الصلوۃ، فصل بیان ما یصیر المسافر به مقیما جلد ۱، ص : ۹۸ ط : دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144310100095
تاریخ اجراء :09-05-2022