ہبہ سے متعلق چند سوالات

سوال کا متن:

 میرے سسر کادو سال پہلے انتقال ہوگیا تھا ان کا ایک بیٹا (جسکی کوئی اولاد نہیں تھی ،ایک پالک بیٹی ہے ) اور تین بیٹیاں ہیں سسر نے اپنی حیاتی میں بیٹے کے نام پر گھر کردیا تھا ، ایک گاڑی کی چابی اور کاغذات  میری بیوی کو دے دیےتھے کہ یہ تم رکھ لو  اور ٹھیک کروالو ، اور کچھ  شیئرز جو ان کو ملے تھے بونس کے طور پر جو انہوں نے اپنی حیاتی میں اپنے دوست کو دیے تھے کہ یہ میری بیٹی کو دینے ہیں یعنی میری بیوی کو بیٹا اس ہی گھر میں رہتاہے شروع سے۔ گھر کی مالیت زیادہ ہے تقریبا (دو کروڑ) لیکن بیٹے نے اسی گھر کے اوپرکا ایک مالا اپنی تنخواہوں سے بنوایا تھا سسر کی حیاتی میں جو نا مکمل ہے اب بیٹا گھر بیچے بغیر اور مالیت معلوم کے بغیر ایک ایک بہن کو 1500000(پندرہ لاکھ) دے رہا ہے گھر کی قیمت سے باری باری ایک ایک بہن کو قسطوں  میں پانچ چھ مہینوں میں ایک بہن پھر دوسری بہن پھر تیسری کو دے رہا ہے کیا یہ ٹھیک ہے ؟ اور  اسکی کوئی اولاد نہیں تو بڑوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بیٹے کو تین حصے دے دیے جائیں جس پر بہنیں راضی ہیں، اور گاڑی اور شیرز سے بھی حصے ہونگے جوکہ سسر نے میری بیوی کودے دیے تھے  کہ نہیں ؟ 

جواب کا متن:

واضح رہے کہ گھر جائیداد وغیرہ کسی کےمحض نام کر دینے سے یا صرف کہنے سےشرعاً وہ اس کا مالک نہیں بنتا  جب تک اس کو کامل قبضہ اور اس میں تصرف کا اختیار نہ دیا گیا ہو ،لہذا مذکورہ گھر سسر کی ملکیت میں تھا اور ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء میں تقسیم ہوگا، البتہ سسر کے بیٹے  جو سسر کی زندگی میں مزید ایک منزل تعمیر کی بیٹۓ کو اس تعمیر کا خرچہ ملے گا باقی رقم تمام ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوگی، بیٹۓ کا اندازے سے تقسیم کرنا درست نہیں،لیکن اگر بہنیں اس تقسیم پر راضی ہوں تو باہمی رضامندی سے اس طرح تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

بہو کو گاڑی کے کاغذات اور چابی حوالے کرنے سے وہ بہو کی ملکیت میں آگئی ہے وہ سسر مرحوم کی میراث میں تقسیم نہیں ہوگی، باقی اگر یہ عام شیئرز ہیں تو صرف دوست کویہ  کہ دینے سے کہ یہ میری بیٹی کو دینے ہیں شرعاً وہ سسر کی ملکیت میں ہیں جو ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء میں تقسیم ہوں گے۔

فتح القدیر میں ہے:

"(وتصح بالإیجاب و القبول و القبض) أما الإیجاب و القبول فإنه عقد والعقد ینعقد بالایجاب والقبول والقبض لا بد منه لثبوت الملك .... و لنا قوله علیه صلی اللہ علیه وسلم: لاتجوز الهبة إلا مقبوضة.

قال العلامه ابن الهمام:

قال صاحب النهایة ای تصح بالایجاب وحدہ فی حق الواھب، وبالایجاب والقبول فی حق الموھوب له  .... ولکن لا یملکه الموھوب له الا بالقبول والقبض."

(کتاب الهبة، ص/479، 480، 481 ج/7 ، ط/رشیدیه)

جامع الفصولین میں ہے:

"وقد مر في (كد) ان الزوج لو عمر دارها باذنها فالنفقة دين عليها ولم يذك انه شرط الرجوع۔ (ذ) الأصل ان من بني في دار غيره بامره فالبناء لرب الدار ويرجع عليه بما انفق."

(احکام العمارۃ فی ملک الغیر، ص:160، ج:2، ط:اسلامی کتب خانه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء فلا رجوع له

وفی الرد: ولو بنى لرب الأرض، بلا أمره ينبغي أن يكون متبرعا كما مر اهـ."

(مسائل شتي، ص:747، ج:6، ط:سعید)

مرحوم سسر کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ کل ترکہ میں سے سب سے پہلے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں، اس کے بعد اگر ان پر کوئی قرضہ ہو تو اسے ادا کیا جائے،پھر اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ماندہ ترکہ کے ایک تہائی سے اسے نافذکیا جائے، اس کے بعد باقی  جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کے5 حصے بناکر مرحوم کے بیٹے کو 2 حصے ہر بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے

میت 5

بیٹابیٹیبیٹیبیٹی
2111

یعنی فیصد کے اعتبار سے مرحوم کے بیٹے کو 40 فیصد ہر بیٹی کو 20 فیصد ملے گا۔

نوٹ: یہ تقسیم اس وقت ہے جب سسر کے صرف یہی ورثاء ہوں، اگر کوئی اور وارث ہو اس کی تفصیل بتاکر  دار الافتاء سے دوبارہ رجوع کیا جاسکتا ہے۔

فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144310100284
تاریخ اجراء :12-05-2022