میزان بینک سے فوائد حاصل کرنا

سوال کا متن:

 میزان بینک میں کاروباری اکاؤنٹ کھولنا یا منافع کی غرض سے لین دین جائز ہے ؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ مال کی حفاظت کی اگر کوئی معتمد صورت نہ ہو تو بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں حفاظت کی غرض سے مال رکھوانے کی گنجائش ہے، خواہ وہ مروجہ اسلامی بینک ہو یا کوئی دوسرا بینک،  البتہ اگر کوئی متبادل صورت ہو تو پھر بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں بھی رقم رکھوانے سے اجتناب کرنا چاہیے؛ کیوں کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں رقم رکھوانے والا اگرچہ عملی طور پر کسی قسم کا سودی معاہدہ نہیں کرتا، لیکن بینک اس کی رکھوائی گئی رقم سودی معاملات میں استعمال کرلیتا ہے، اور مال رکھوانے والا نہ چاہتے ہوئے بھی سودی لین دین کا کسی نہ کسی درجہ میں حصہ بن جاتا ہے۔

باقی جہاں تک میزان بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانے کا سوال ہے تو اس کے لیے سمجھنا چاہیے کہ مروجہ اسلامی  بینکوں   کا طریقِ کار مکمل طور پر  شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے، اس لیے مروجہ  اسلامی بینکوں میں بھی سیونگ اکاؤنٹ کھولنا اور اس سے منافع لینا جائز نہیں۔

 اگر  کسی نے سیونگ اکاؤنٹ میں رقم رکھ کر اس کا منافع    وُصول کر لیا  ہو   تو اس کا مصرف یہ ہے کہ  وہ رقم کسی مستحقِ زکاۃ کو ثواب کی نیت کے بغیر دے دی جائے۔

مروجہ اسلامی  بینکوں  کا اگرچہ یہ دعویٰ ہے کہ وہ علماءِ کرام کی نگرانی میں  شرعی اصولوں کے مطابق کام کرتے ہیں،  لیکن جمہور اہلِ علم کی رائے کے مطابق  ان  بینکوں کا طریقِ کار مکمل طور پر  شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے، لہذا روایتی بینکوں کی طرح ان سے بھی  تمویلی معاملات کرنا اور قرضہ لینا جائز نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»".

(صحیح مسلم، باب لعن آکل الربوٰ و موکلہ، ج:۳ ؍ ۱۲۱۹ ، ط:داراحیاءالتراث العربی)

الأشباه والنظائرمیں ہے:

"الأولى: الضرورات تبيح المحظورات ... الثانية: ما أبيح للضرورة يقدر بقدرها."

(ص:73، ط:دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144311101724
تاریخ اجراء :25-06-2022