نمستے یا نمسکار کہنے کا حکم

سوال کا متن:

کفار کا کوئی مذہبی پس منظر رکھنے والا عمل ہو،اور اس مذہبی پس منظر کی وجہ سے اس عمل پر کوئی حکم شرعی مرتب ہوتا ہو ، پھر وہ عمل اپنا مذہبی پس منظر کھو کر صرف تہذیبی روایت کا ایک حصہ بن کر رہ جائے تو کیا اس سے حکم شرعی میں کوئی فرق واقع ہوگا یا نہیں ؟ مثلاً " نمستے یا نمسکار " کا لفظ ہے کہ اس کا ایک مذہبی پس منظر ہے ،لیکن آج کے دور میں اس کا مذہبی پس منظر اوجھل ہے اور صرف تہذیبی روایت کے طور پر یہ لفظ رائج ہے ،کیا کچھ گنجائش نکلتی ہے ؟

جواب کا متن:

واضح ہو کہ ہر قوم / مذہب کا ملاقات کے وقت مخصوص الفاظ میں سلام (greeting)کرنے کا جو انداز ہے، اس کی دو حیثیتیں ہیں، ایک اس کے لغوی معنی ہیں جو عام طور پر ملاقات کرنے والے کے لیے دعائیہ کلمات یا اظہارِ ادب یا اظہارِ خوشی پر مشتمل ہوتے ہیں اور دوسری حیثیت ان الفاظ کی قومی شناخت یا مذہبی شناخت کی ہوتی ہے۔ غیر مسلم سمیت کسی مسلمان سے  ملتے وقت  سلامِ مسنون  کے علاوہ ایسے الفاظ استعمال کرنے کی تو گنجائش ہے جو لغوی طور پر صحیح ہوں، (یعنی ان کا معنی درست ہو، اور اس میں غیر شرعی بات نہ ہو، مثلًا کفر پر رضامندی یا کوئی شرکیہ کلمہ وغیرہ) لیکن  شرط یہ ہے کہ وہ الفاظ کسی غیر قوم / مذہب  کی شناخت (یا خصوصیت)  یا ان کی مخصوص روایات و تہذیب کا حصہ نہ ہوں۔   پس اگر وہ  الفاظ کسی غیر قوم / مذہب کی شناخت یا مخصوص روایات و تہذیب کا  حصہ ہوں تو غیر قوم / مذہب سے مشابہت کی وجہ سے اس کا استعمال ممنوع  ہوگا، اگرچہ اس کے لغوی معنی دعائیہ کلمات پر ہی کیوں نہ مشتمل ہوں۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں  ملاقات  کے  وقت ہندؤوں کے مخصوص کلمات "نمستے یا نمسکار" کہنا ایک مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔فی زمانہ اگر یہ کلمات ان کے مذہبی پس منظر کے ساتھ خاص نہ بھی ہوں تب بھی چوں کہ یہ کلمات ان کی مخصوص تہذیب کا حصہ ہیں اس لیے ان کے کہنے کی گنجائش نہیں ہے، مسلمان کے لیے ملاقات کے وقت سلام کہنے کا حکم ہے، اور اس سے بہتر کوئی کلمہ ملاقات کے وقت باہمی الفت و محبت اور دعا پر مشتمل نہیں ہوسکتا۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے :

"سوال : ہندوؤں کو نمشکار یا نمستے کہنا کیا ہے؟ بینوا توجروا

جواب : اس کی اجازت نہیں۔

(کیوں کہ یہ مخصوص مذہبی الفاظ ہیں، "ومن تشبه بقوم فهو منهم"، البتہ جو الفاظ مذہبی نہیں ہیں، بلکہ معاشرتی ہیں جیسے آداب ! یا آداب عرض ہے ! ان کی گنجائش ہے۔ حاشیہ از مفتی سعید احمد پالنپوری صاحبؒ) (ج10 / ص 126)

فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144309101016
تاریخ اجراء :20-04-2022