شادی سے پہلے خیر و برکت کے لیے دعائے خیر پروگرام رکھنا

سوال کا متن:

آج کل ایک رواج پڑ چکا ہے کہ لوگ شادی سے قبل دعائے خیر کا پروگرام رکھتے ہیں شادی میں خیر و برکت کے لیے، جس میں قرآن کی تلاوت کرکے دعا کرتے ہیں، اور پھر اس کے بعد کھانا وغیرہ ہوتا ہے، تو کیا یہ جائز ہے یا یہ بدعت شمار ہوگی؟

جواب کا متن:

واضح رہے کہ شریعت کی اصطلاح میں بدعت کہتے ہیں: ” دین میں کسی کام کا زیادہ یا کم کرنا،  جس کی اصل کتاب وسنت سے نہ ہو، اور جو  صحابہؓ،  تابعین اور تبع تابعین کے دورکے بعد ہوا ہو ،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے کرنے کی اجازت منقول نہ ہو، نہ قولا،  ًنہ فعلاً، نہ صراحتاً، نہ اشارۃً ، اور اس کو دین اور ثواب کا کام سمجھ کر کیا جائے“،  احادیث میں اس کی بہت مذمت اور شریعت سے محرومی کا سبب بیان کیا ہے۔

مذکورہ صورت میں اگر لوگ شادی سے قبل پروگرام کے انعقاد کو لازم اور باعثِ ثواب سمجھتے ہو تو اس صورت میں تو یہ ناجائز ہوگا، اور یہ بدعت کے زمرہ میں داخل ہوگا،  تاہم اگر کوئی بغیر لازم کیے مذکورہ کام صرف خیر و برکت کے لیے کرے تو اس کے لیے ایسا کرنا درست ہوگا۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"حدثنا أحمد بن حنبل، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا ثور بن يزيد، قال: حدثني خالد بن معدان، قال: حدثني عبد الرحمن بن عمرو السلمي، وحجر بن حجر، قالا: أتينا العرباض بن سارية، وهو ممن نزل فيه {ولا على الذين إذا ما أتوك لتحملهم قلت لا أجد ما أحملكم عليه} [التوبة: 92] فسلمنا، وقلنا: أتيناك زائرين وعائدين ومقتبسين، فقال العرباض: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم، ثم أقبل علينا فوعظنا موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب، فقال قائل: يا رسول الله كأن هذه موعظة مودع، فماذا تعهد إلينا؟ فقال «أوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة، وإن عبدا حبشيا، فإنه من يعش منكم بعدي فسيرى اختلافا كثيرا، فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء المهديين الراشدين، تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ، وإياكم ومحدثات الأمور، فإن كل محدثة ‌بدعة، وكل ‌بدعة ضلالة»".

(باب فی لزوم السنة، 4/ 200، رقم الحدیث: 4607، ط:المكتبة العصرية بیروت)

فتح الباریمیں ہے:

"والمحدثات بفتح الدال جمع محدثة والمراد بها ما أحدث وليس له أصل في الشرع ويسمى في عرف الشرع ‌بدعة وما كان له أصل يدل عليه الشرع فليس ببدعة فالبدعة في عرف الشرع مذمومة بخلاف اللغة فإن كل شيء أحدث على غير مثال يسمى ‌بدعة سواء كان محمودا أو مذموما".

 (کتاب الفتن، قوله باب الاقتداء بسنن رسول الله صلى الله عليه وسلم،13 / 253، ط:  دار المعرفة)

و فيه ايضا:

"والبدعة أصلها ما أحدث على غير مثال سابق وتطلق في الشرع في مقابل السنة فتكون مذمومة والتحقيق أنها إن كانت مما تندرج تحت ‌مستحسن ‌في ‌الشرع فهي حسنة وأن كانت مما تندرج تحت مستقبح في الشرع فهي مستقبحة وإلا فهي من قسم المباح".

(باب فضل من قام رمضان، 4/ 253، ط: دار المعرفة)

مسند الدارمی میں ہے:

"حدثنا قبيصة، أخبرنا سفيان، عن أبي رباح شيخ من آل عمر قال: " رأى سعيد بن المسيب رجلا يصلي بعد العصر الركعتين يكبر، فقال له يا أبا محمد: أيعذبني الله على الصلاة؟ قال: «لا، ولكن ‌يعذبك الله بخلاف السنة»".

(باب ما يتقى من تفسير حديث النبي صلى الله عليه وسلم وقول غيره عند قوله صلى الله عليه وسلم، 1 /404، رقم الحدیث:450 ، ط:دار المغني للنشر والتوزيع)

فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144311102115
تاریخ اجراء :29-06-2022