شوہر بیوی سے کتنا عرصہ بیرون ملک میں مسافر رہ سکتا ہے؟

سوال کا متن:

شوہر کا بیوی سے دور بیرون ملک میں دوسال تک قیام کرنا کیسا ہے؟

جواب کا متن:

عام حالات میں شوہر کے لیے بیوی کی اجازت کے بغیر چار ماہ تک اور بیوی کی اجازت ہو تو چار  ماہ سے زائد عرصہ دور رہنا جائز ہے۔
یہ حکم عام حالات میں  اور کبھی کبھار ضرورت پیش آنے  کی صورت کا ہے، لیکن اگر اتنا عرصہ دور رہنے کی صورت میں میاں بیوی میں سے کسی ایک کے بھی فتنے میں مبتلا ہونے کا یقین یا غالب گمان ہوتو پھر بیوی کی اجازت کے ساتھ بھی دور رہنا جائز نہ ہو گا اور جہاں غالب گمان تو نہ ہو، مگر کسی درجے میں احتمال ہوتو وہاں بھی حتی الامکان اس سے احتراز ہی لازم ہے اور اس سلسلے میں مدت کی کوئی قید نہیں ہے، بلکہ یہ مدت عرف اور حالات کے لحاظ سے بدلتی رہے گی، جب کہ موجودہ حالات میں ملازمت، کمائی وغیرہ کے سلسلے میں  سالہا  سال بیوی سے دور  رہنا فتنے سے خالی نہیں ہے اور  اتنی  مدت کے ليے بیوی کو چھوڑ کر جانا کہ اس کے فتنے میں واقع ہونے غالب گمان ہو یا دیگر حقوق ضائع ہورہے ہوں ہرگز جائز نہیں۔
لہذا گھر سے دور بیرونِ ملک رہائش پذیر افراد کو اولا تو ایسی ملازمت و کاروبار تلاش کرنا چاهيے کہ چار ماہ سے پہلے گھر کاچکر لگانا ممکن ہو،یا بیوی کو اپنے ساتھ ملازمت کی جگہ منتقل کردے،  البتہ اگر کوئی ایسی صورت ممکن نہ ہو اور گھر سے بہت زیادہ دور جانا پڑجائے، جہاں سے سال دو سال تک واپسی مشکل ہوتو ایسی صورت میں درج ذیل شرائط کے ساتھ وہاں ٹھہرنا جائز ہوگا:

1:  اس مدت میں بیوی کو حقوق زوجیت (جماع وغیرہ ) کی طرف زیادہ شوق و رغبت نہ ہو۔
2: اتنے عرصے میں بیوی یا خود شوہر کے فتنے میں پڑنے یقین یا غالب گمان نہ ہو۔
3: بیوی کی اجازت ہو۔
4: نان و نفقہ اور اولاد کی تعلیم اور تربیت کا مناسب انتظام کیا جائے۔

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

"عبد الرزاق، عن ابن جريج، قال: أخبرني من أصدق، أن عمر وهو يطوف، سمع امرأة وهي تقول:

تطاول هذا الليل واخضل جانبه … وأرقني إذ لا خليل ألاعبه

فلولا حذار الله لا شيء مثله … ‌لزعزع من هذا السرير جوانبه

فقال عمر: فما لك؟ قالت: أغربت زوجي منذ أربعة أشهر، وقد اشتقت إليه، فقال: أردت سوءا؟ قالت: معاذ الله، قال: فاملكي عليك نفسك فإنما هو البريد إليه، فبعث إليه، ثم دخل على حفصة، فقال: إني سائلك عن أمر قد أهمني فأفرجيه عني، في كم تشتاق المرأة إلى زوجها؟ فخفضت رأسها واستحيت، فقال: فإن الله لا يستحيي من الحق، فأشارت بيدها ثلاثة أشهر وإلا فأربعة، فكتب عمر: ألا تحبس الجيوش فوق أربعة أشهر."

(كتاب الطلاق، باب حق المرأة على زوجهاوفي كم تشتاق، ج:7، ص:109، ط:دار التأصيل)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويؤيد ذلك أن عمر - رضي الله تعالى عنه - لما سمع في الليل امرأة تقول: فوالله لولا الله تخشى عواقبه لزحزح من هذا السرير جوانبه فسأل عنها فإذا زوجها في الجهاد، فسأل بنته حفصة: كم تصبر المرأة عن الرجل: فقالت أربعة أشهر، فأمر أمراء الأجناد أن لا يتخلف المتزوج عن أهله أكثر منها، ولو لم يكن في هذه المدة زيادة مضارة بها لما شرع الله تعالى الفراق بالإيلاء فيها."

(كتاب الطلاق، باب القسم بين الزوجات، ج:3، ص:203، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب. ويسقط حقها بمرة ويجب ديانة أحيانا ولا يبلغ الإيلاء إلا برضاها

(قوله بل يستحب) أي ما ذكر من المجامعة ح (قوله ويسقط حقها بمرة) قال في الفتح: واعلم أن ترك جماعها مطلقا لا يحل له، صرح أصحابنا بأن جماعها أحيانا واجب ديانة، لكن لا يدخل تحت القضاء والإلزام إلا الوطأة الأولى ولم يقدروا فيه مدة.

ويجب أن لا يبلغ به مدة الإيلاء إلا برضاها وطيب نفسها به."

(كتاب الطلاق، باب القسم بين الزوجات، ج:3، ص:203، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144402101426
تاریخ اجراء :18-09-2022