سوال کا متن:
ہمارے ہاں بعض لوگوں نے اعلان رمضان سے قبل تراویح پڑھ لی اور ساتھ دو پارے بھی، اور حکومت نے اعلان بعد میں کیا آیا ان کی تراویح درست ہے؟ اعادہ ہے کہ نہیں؟
جواب کا متن:
واضح رہے کہ تراویح رمضان میں مشروع ہے، رمضان کے علاوہ میں تراویح نہیں پڑھی جاتی، اور جب تک چاند کا اعلان نہ ہوجائےتو اس وقت تک رمضان شروع نہیں ہوتاہے۔ لہذا اعلان سے پہلے تراویح پڑھنا صحیح نہیں ہے، اور جو پارے پڑھے گئے ہیں تو ختم مکمل کرنے کے لیے وہ تراویح کی نماز میں دوبارہ پڑھے جائیں۔
'صحیح بخاری' میں ہے:
"حدثنا آدم: حدثنا شعبة: حدثنا محمد بن زياد قال: سمعت أبا هريرة رضي الله عنه يقول قال النبي صلى الله عليه وسلم أو قال: قال أبو القاسم صلى الله عليه وسلم: «صوموا لرؤيته، وأفطروا لرؤيته، فإن أغمي عليكم فأكملوا عدة شعبان ثلاثين.»."
(كتاب الصوم، باب: قول النبي صلى الله عليه وسلم: (إذا رأيتم الهلال فصوموا، وإذا رأيتموه فأفطروا)، ج: 2، ص: 947، رقم: 1909، ط: بشري)
الدر المختار میں ہے:
"(ولايصلي الوتر و) لا (التطوع بجماعة خارج رمضان) أي يكره ذلك على سبيل التداعي، بأن يقتدي أربعة بواحد كما في الدرر، ولا خلاف في صحة الاقتداء إذ لا مانع نهر."
(شامي، كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ج: 2، ص: 49،48، ط: سعید)
'الجوھرۃ النیرۃ' میں ہے:
"وإذا فسد الشفع وقد قرأ فيه لايعتد بما قرأه فيه ويعيد القراءة؛ ليحصل الختم في الصلاة الجائزة، وقال بعضهم: يعتد بها؛ لأن المقصود هو القراءة ولا فساد فيها."
(كتاب الصلاة، باب قيام شهر رمضان، ج: 1، ص: 118، ط: قديمي)
فقط والله اعلم