اذان کے دوران حفظ کی کلاس میں سبق موقوف کرنا

سوال کا متن:

کلاس میں حفظ کا سبق چل رہاہو اورمسجد میں اذان شروع ہوجائے توکیا سبق کو موقوف کرنا چاہیے؟

جواب کا متن:

درس گاہ میں قرآن کا سبق چل رہا ہو،  اور اذان ہونے لگے تو چاہے تلاوت جاری رکھے چاہے بند کر کے اذان کا جواب دے، یہ  دونوں صورتیں جائز ہیں، تلاوت جاری رکھتے ہوئے زبان سے اذان کا جواب نہ دینے میں کوئی گناہ نہیں ہے، البتہ افضل اور مستحب یہ ہے کہ تلاوت بند کرکے اذان کا جواب دے؛ اس لیے کہ تلاوت بعد میں دوبارہ ہوسکتی ہے، مگر  اس اذان کے جواب  کا موقع پھر نہیں ملے گا۔

اور اگر پہلے سے تلاوت شروع نہ کی ہو اور اذان شروع ہوجائے تو اذان کا جواب دینا چاہیے، اذان مکمل ہونے کے بعد تلاوت شروع کی جائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 398):
"(فيقطع قراءة القرآن لو) كان يقرأ (بمنزله، ويجيب) لو أذان مسجده كما يأتي (ولو بمسجد لا) لأنه أجاب بالحضور، وهذا متفرع على قول الحلواني، وأما عندنا فيقطع ويجيب بلسانه مطلقاً".

(قوله: فيقطع قراءة القرآن) الظاهر أن المراد المسارعة للإجابة وعدم القعود لأجل القراءة لإخلال القعود بالسعي الواجب. وإلا فلا مانع من القراءة ماشياً، إلا أن يراد يقطعها ندباً للإجابة باللسان أيضاً، لكن لايناسبه التفريع ولا قوله ولو بمسجد لا. لما علمت من أن الحلواني قائل بنسبها باللسان، فافهم". فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144004201196
تاریخ اجراء :14-02-2019