تعلیم کا حلقہ افضل ہے یا تلاوتِ قرآن

سوال کا متن:

میں مسجد میں قرآن پڑھ رہا تھا, تو ایک آدمی میرے پاس آیا اور مجھے کہنے لگا کہ آجاؤ تعلیم ہو رہی ہےتعلیم میں بیٹھ جاؤ , تو میں نے کہا: میں قرآن پڑھ رہا ہوں، مجھے چھوڑ دو، مجھے قرآن پڑھنے دو , تو وہ کہنے لگا یہ انفرادی عمل ہے ,اور وہ اجتماعی عمل ہے , انفرادی عمل قطرہ ہے اور اجتماعی عمل دریا ہے؛ لہذا اجتماعی عمل کی طرف آؤ، انفرادی عمل بعد میں کرنا . میں نے ان بھائیوں میں سے ایک سمجھ دار بھائی سے پوچھا کہ ایسا کیوں کرتے ہو؟ ایک بندہ قرآن پڑھتا ہے اور آپ لوگ اسے تنگ کرتے ہو ؟  تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ جب ہمارے پیارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے,وعظ ونصیحت کرتے تو صحابہ میں سے کوئی قرآن یا نوافل الغرض انفرادی عمل کرتا ? تو میں نے کہا کہ یہ تو مشکل ہے کہ آقا وعظ ونصیحت کر رہے ہوں اور صحابہ اپنے عمل میں لگے ہوئے ہوں وہ تو آقا کی طرف دوڑ لگا کے سنیں گے, تو انہوں نے کہا کہ یہاں بھی تو تعلیم ہو رہی ہے تو انفرادی عمل کو مؤخر کردو .

1۔ آپ حضرات میری اصلاح فرمادیں کہ واقعی تعلیم میں بیٹھنا زیادہ بہتر تھا اور قرآن بعد میں پڑھ لیتا؟ اور واقعی اجتماعی اعمال کے وقت انفرادی عمل کو چھوڑ دیا جائے ?

2۔  انفرادی عمل اور اجتماعی عمل کے لیے اسلام میں کوئی اصول وغیرہ ہے کہ یہ عمل انفرادی ہے اور یہ اجتماعی ?

3۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ میں بعد میں قرآن پڑھ لوں اور ابھی تعلیم میں بیٹھ جاؤ ں،  اگر تعلیم میں بیٹھا تو قرآن پڑھنا مشکل ہو جائے گا؛ لہذا اب میں کیا کروں ?

جواب کا متن:

جو آدمی جماعت میں نکل کر وقت لگا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ جماعت کے اجتماعی اعمال کو اپنے انفرادی اعمال پر ترجیح دے ، تاہم عام حالات میں اگر کسی جگہ تعلیم  یا وعظ ونصیحت کاحلقہ لگا ہوا ہو اور کوئی شخص اس دوران الگ جگہ پر بیٹھ کر تلاوت ،ذکر و اذکار میں مشغول ہو تو اسے زبردستی تعلیم کے حلقے میں بٹھانا درست نہیں ہے،  ہر آدمی جماعت کے اجتماعی اعمال میں جڑنے کا مکلف نہیں ہے؛ لہذا اگر آپ تعلیم کے وقت میں اپنی تلاوت کا معمول پورا کرنا چاہیں تو بلا کراہت کرسکتے ہیں، خصوصاً جب کہ بعد میں تلاوت کا معمول پورا کرنے کا وقت بھی نہ ہو تو  تلاوت ہی کو ترجیح دیں۔ تلاوت بھی بعثتِ نبی ﷺ کے مقاصد میں سے ہے۔

﴿رَبَّنَا وَٱبْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا۟ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ﴾ (البقرة:129)

ہاں اتنا اہتمام کرلیں کہ تعلیم کی جگہ سے ہٹ کر بیٹھ جایا کریں؛ تاکہ اس میں خلل نہ آئے۔

یہ بھی واضح رہے کہ نبی کریم ﷺ کی مجلس اور آپ ﷺ کے بیان و وعظ پر کسی اور کے بیان کو قیاس نہیں کیا جاسکتا؛ کیوں کہ آپ ﷺ جب کسی عمل کی طرف بلائیں تو اس پر لبیک کہنا فرض اور عین ایمان کا تقاضا ہے، اس سے انکار کفر ہے، جب کہ کسی اور کے بیان اور وعظ میں شرکت فرض یا واجب کا درجہ نہیں رکھتی، بلکہ مختلف احکام کے مختلف مراتب و مواقع ہیں۔فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143909200758
تاریخ اجراء :13-06-2018