استخارہ خود کرنا مسنون ہے

سوال کا متن:

استخارہ کے متعلق یہ پوچھنا تھا کہ استخارہ خود ہی کرنا ضروری ہے یا کسی اللہ والے بزرگ سے بھی استخارہ کروا سکتے ہیں؟ مجھے کسی دوست نے بتایا کہ کسی اور سے استخارہ کروانا ثابت نہیں ہے؟ شریعت کی روشنی میں وضاحت فرما دیں!

جواب کا متن:

احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتاہے  کہ جس شخص کی حاجت ہو وہ خود استخارہ کرے،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو استخارہ کا طریقہ اس اہتمام سے تعلیم فرماتے تھے جیسے قرآن کریم کی سورت یا آیت۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے امور میں مشورہ تو لیتے تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے "استخارہ" نہیں کرواتے تھے، حال آں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مقدس وبرگزیدہ کوئی انسان نہیں ،نیز اس وقت وحی بھی نازل ہوتی تھی جس کی روشنی میں خیر وشر یقینی طورپر معلوم ہوسکتاتھا، لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نہ کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے لیے استخارہ کروایا اور نہ ہی کسی اور کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے استخارہ کیا، پس رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعہ  آنے والی پوری امت کی تربیت اس نہج پر فرمائی کہ امت کا ہر فرد اللہ تعالیٰ سے خود تعلق قائم کرے، اور مہربان رب سے ہر شخص اپنی حاجت مانگنے کے ساتھ خود ہی خیر کا خواست گار ہو۔

بہرحال ذیل میں آپ کی سہولت کے لیے استخارہ کا طریقہ درج کیاجاتاہے،اس کے مطابق آپ خود اپنی حاجت کے لیے استخارہ کرسکتے ہیں۔ استخارہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہودو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ ہو کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔ سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی مسنون دعا مانگیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے، استخارہ کی مسنون دعا:

'' اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ اَللّٰهُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِهٖ وَ اٰجِلِهٖ ، فَاقْدِرْهُ لِیْ ، وَ یَسِّرْهُ لِیْ ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْهِ وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِهٖ وَ اٰجِلِهٖ ، فَاصْرِفْهُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْهُ ، وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِهٖ ۔''

دعاکرتے وقت جب ”هذا الامر “پر پہنچے تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”هذا الامر “کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلاً: ”هذا السفر “یا ”هذا النکاح “یا ”هذه التجارة “یا ”هذا البیع “کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”هذا الأمر “کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ۔ استخارے کے بعد  جس طرف دل مائل ہو وہ کام کرے۔ اگر ایک دفعہ میں قلبی اطمینان حاصل نہ ہو تو سات دن تک یہی عمل دہرائے، ان شاء اللہ خیر ہوگی۔استخارہ کے لیے کوئی وقت خاص نہیں، البتہ بہتر یہ ہے کہ رات میں سونے سے پہلے جب یکسوئی کا ماحول ہو تو استخارہ کرکے سوجائے، لیکن خواب آنا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اصل بات قلبی رجحان اور اطمینان ہے۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144003200017
تاریخ اجراء :10-11-2018