سوال کا متن:
میری ایک بیٹی چار ماہ کی ہے، اب میرا دوسرا حمل رہ گیا ہے، اس کا پہلا مہینہ ہے، آپ بتائیں مجھے رکھنا چاہیے ہے یا ضائع کروادینا چاہیے؟
جواب کا متن:
حمل سے عورت کی جان کو خطرہ ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہو ، یا حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے یا خراب ہوجائے جس سےپہلے بچے کو نقصان ہو اور بچے کے والد کی اتنی گنجائش نہ ہو کہ وہ اجرت پر دودھ پلانے والی عورت مقرر کرسکے تو ایسے اعذار کی بنا پر حمل میں روح پڑجانے سے پہلے پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے) حمل ساقط کرنے کی گنجائش ہے، اور چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاطِ حمل جائزنہیں ہے، اور شدید عذر نہ ہو تو پھر حمل کو ساقط کرنا گناہ ہے، اس لیے صرف بچے کی شیرخوارگی کی وجہ سے حمل ساقط نہ کروائیں، اگر واقعۃً مذکورہ اعذار میں سے کوئی عذر ہو تو گنجائش ہوگی۔
' فتاوی عالمگیری' میں ہے؛
' امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفةً أو مضغةً أو علقةً لم يخلق له عضو، وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوماً: أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً، كذا في خزانة المفتين. وهكذا في فتاوى قاضي خان'. (5 / 356، الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات، کتاب الکراہیۃ، ط:رشیدیہ) فقط واللہ اعلم