رہن کی شرعی حیثیت اوراس کی مدت کا بیان نیز گروی رکھی ہوئی چیز سے استفادے کا حکم

سوال کا متن:

اگر کوئی شخص کسی سے زمین رہن لے تو کیا اس پر وہ کاشت کاری کر سکتا ہے اور نفع کما سکتا ہے؟ عموماً رہن زمین پیسوں کے عوض دی جاتی ہے، نیز رہن کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ہمارے ہاں پرانے لوگ سالوں سے زمین رہن لیتے دیتے رہتے ہیں، آیا شریعت میں اس کی کیا گنجائش ہے؟ رہن کی مدت کتنی ہے؟ جس کو رہن دی جاتی ہے وہ پیسے لوٹانے پر زمین واپس کرتا ہے، اور پھر بیع کا ذکر بھی ہوتا ہے۔  برائے مہر بانی تفصیل سے جواب دیں!

جواب کا متن:

”رہن“ عربی لفظ ہے،  اردو زبان میں اسے ’’گروی‘‘کہتے ہیں۔اور ہماری علاقائی زبان میں اس کو ’’بھرنا‘‘ اور’’بندھک‘‘ کہتے ہیں۔  رہن کی شرعی تعریف یہ ہے کہ کسی مالی شے کو  دَین (قرض) کے بدلے محبوس کرنا کہ اس سے یا اس کی قیمت سے بہ وقتِ تعذر اپنے دَین کی وصولی ممکن ہو۔ یعنی اگر کوئی شخص کسی سے قرض لے تو قرض دینے والا بطورِ ضمانت و وثیقہ قرض دار سے کوئی قیمتی چیز لے کر اپنے قبضے میں رکھتا ہے کہ اگر قرض دار قرض نہ ادا کرسکے تو اس قیمتی چیز سے قرض کی رقم کی ادائیگی کا انتظام کیا جاسکے۔

’’اَلرَهنُ هو حَبسُ شيءٍ مالیٍ بِحَقٍ یُمکِنُ اِستِیفائُه مِنه کَالْدَّینِ“ . (درمختار ج۵/ ص۳۰۷)

’’رہن‘‘  کا شرعی حکم یہ ہے کہ ضرورت کی وجہ سے کسی قرض کے مقابلے میں ’’رہن‘‘ لینا اور دینا درست ہے، لیکن رہن میں رکھی جانے والی چیز  کی حیثیت محض ضمانت کی ہوتی ہے، اور رہن میں رکھے جانے کے بعد بھی رہن (گروی) رکھی ہوئی چیز  اس کے اصل مالک کی ہی ملک رہتی ہے؛ البتہ قبضہ مرتہن (جس کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے) کا ہوتا ہے۔  نیز اس میں پیدا ہونے والی زیادتی بھی مالک کی ملک قرار پاتی ہے۔ اور مرتہن (جس کے پاس چیز گروی رکھی ہو) کے لیے شرعاً اس کے استعمال اور اس سے نفع  کمانے  کی اجازت نہیں ہوتی۔

رہن میں کوئی بھی قیمتی چیز رکھی جاسکتی ہے، چناں چہ زمین کو بھی رہن کے طور پر رکھنا درست ہے۔  لیکن جس کے پاس زمین رہن رکھوائی جائے اس کے لیے زمین میں کاشت کرکے اس سے نفع اٹھانا جائز نہیں ہے۔ قرض واپس کرنے پر زمین واپس کرنا لازم ہے۔ رہن رکھی ہوئی چیز یا اس سے حاصل شدہ اضافے سے فائدہ اٹھانا قرض دے کر نفع اٹھانے کی وجہ سے سود کے حکم میں ہے۔

باقی رہن کی کوئی مدت نہیں ہے، فریقین جتنی مدت تک معاملہ کریں اتنی مدت تک رہن رکھوایا جاسکتاہے۔

آج کل زمینوں کو طویل المیعاد قرضوں کے بدلے گروی رکھوایا جاتاہے اور ان زمینوں پر کاشت کاری کرکے نفع اٹھایا جاتاہے، اور قرض کی ادائیگی کی صورت میں اصل مالک کو زمین واپس کردی جاتی ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ شرعاً یہ جائز نہیں ہے۔

بعض لوگ گروی سے فائدہ اٹھانے کو جواز فراہم کرنے کے لیے قرض اور رہن کی لین دین کے وقت یہ معاہدہ کرتے ہیں کہ ہم اتنی رقم میں زمین کا سودا کررہے ہیں، البتہ اتنے عرصے بعد یا جب بھی ہم یہ رقم آپ کو واپس کردیں تو یہ زمین آپ ہمیں واپس کرنے کے پابند ہوں گے، اس معاملے میں اصل مقصد قرض کے عوض گروی لینے والے شخص کے لیے گروی رکھی ہوئی چیز سے نفع اٹھانے کا جواز ہوتاہے، اور بیع کی یہ کار روائی محض حیلے کے طور پر کی جاتی ہے، اور قرض کی ادائیگی کی مدت پوری ہونے پر زمین واپس کردی جاتی ہے؛ لہٰذا اس کا حکم بھی یہ ہے کہ اس طرح نفع اٹھانا جائز نہیں ہے۔

ہاں اگر واقعۃً زمین کے مالک کو رقم کی ضرورت ہو اور حقیقت میں زمین کا سودا کرے اور معاملہ کرتے وقت زمین واپس کرنے  کی شرط نہ لگائی جائے، بلکہ زمین کی قیمت وصول کرکے بایں طور زمین مکمل طور پر خریدار کی ملکیت میں دے دی جائے کہ وہ جب چاہے زمین کسی اور کو بیچ سکے پھر اتفاقاً زمین بیچنے والے شخص کے پاس زمین کی قیمت کے بقدر رقم آجائے اور وہ دوبارہ وہی زمین خریدلے تو اس کی اجازت ہوگی۔ 

’’وَنَماءُ الْرَّهنِ کَالوَلَدِ وَالْثَّمَرِ وَالْلَّبَنِ وَالصُوفِ والوَبرِ وَالاَرْشِ وَنَحوِ ذٰلکَ لِلْرَّاهنِ لِتَوَلُّدِه مِنْ مِلْکِه‘‘. (درمختار ج۵/ ص۳۳۵)

’’لاَ یَحِلُ لَه اَنْ یَنْتَفِعَ بِشَیٍٴ مِنه بِوَجْه مِنَ الْوُجُوه اِنْ اَذِنَ لَه الْرَّاهنُ لأنَّه أذِنَ لَه في الْرِبَوا‘‘. (شامی ج۵/ ص۳۱۰) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144010200008
تاریخ اجراء :11-06-2019