ختم قرآن پر وعظ

سوال کا متن:

 رمضان کےآخری عشرہ میں نمازِ تراویح کے بعد ختمِ قرآن کے موقع پر وعظ و تقریر اور اجتماعی دعا کا اہتمام کیا جاتا ہے. بعض مساجد میں سحری تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے. آخری عشرے میں ذکر واذکار اور نوافل کے اہتمام کے بجائے لوگ ایسی تقاریب میں بڑے اہتمام کے ساتھ شریک ہوتے ہیں. اور شرکت کرنا باعثِ ثواب سمجھتے ہیں. براہِ مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ ایسی تقاریب کا اہتمام کرنا اور ان میں شرکت کرنا کیسا ہے؟  سلفِ صالحین کے دور میں ایسی تقاریب ہوتی تھیں یا نہیں؟کس حد تک ایسی تقاریب کے اہتمام کی گنجائش ہے؟

جواب کا متن:

قرآنِ کریم کی تکمیل پر اجتماعی یا انفرادی دعا کرنا مستحسن عمل ہے اور یہ بھی دعاؤں کی قبولیت کے اوقات میں سے ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ختمِ قرآن کے مواقع پر دعاکرنا ثابت ہے۔المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے:

"عن ثابت أن أنس بن مالك، كان إذا ختم القرآن جمع أهله وولده ، فدعا لهم". (1/291)

 نیز نمازوں کے بعد دعاکاذکر احادیثِ مبارکہ میں بکثرت آیاہے، اور تراویح بھی مستقل نما زہے؛ لہذا نمازِتراویح کے بعد دعا مانگنا درست ہے،جب کہ اس کو لازم نہ سمجھاجائے اور ترک کرنے والے کو ملامت نہ کی جائے،تراویح کے بعد دعا کامانگنابزرگانِ دین کا معمول رہاہے۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند4/190)

نیز  چوں کہ لوگوں کا مجمع ہے اور تکمیلِ قرآن کا موقع ہے تو ایسے موقع پر مختصر  وعظ کہنا جائز بلکہ مستحسن ہے،  خواہ یہ وعظ تکمیلِ قرآن اور تراویح کے متصل بعد ہو یا کچھ وقفہ دے کر رات میں کسی وقت ہو۔ لیکن  اس قیمتی رات  کے اکثر حصے کو  اس عمل میں گزاردینا  یا پر تکلف تقاریب کا انعقاد یہ سلف صالح  سے ثابت نہیں،اور  اس رات کے  شایانِ شان نہیں۔اس مہینے میں خصوصاً طاق راتوں میں زیادہ اہتمام انفرادی اعمال کا ہوناچاہیے۔  لہٰذا بیان وغیرہ کرنا ہو تو ایسی ترتیب بنائی جائے کہ اہلِ مسجد کو رات کے معتد بہ حصے میں انفرادی عبادت اور اعمال کا موقع میسر آسکے۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144010200201
تاریخ اجراء :17-06-2019