مرد کے لیے ساڑھے چار ماشے سے زائد انگوٹھی پہننا

سوال کا متن:

مرد کے لیے ساڑھے چار ماشے سے زائد یا پھر ایک سے زائد انگوٹھی پہننا مکروہِ تحریمی ہے یا حرام یا کفر؟ باحوالہ بیان فرمائیں!

جواب کا متن:

مردوں کے لیے ایک مثقال (ساڑھے چار ماشے  یعنی۴گرام،۳۷۴ملی گرام (4.374 gm) سے کم  وزن کی  چاندی کی انگوٹھی یا چھلّا پہننا جائز ہے، ساڑھے چار ماشہ یا اس سے زیادہ وزن کی انگوٹھی پہننا  مکروہِ تحریمی اور ناجائز ہے۔ چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کی انگوٹھی پہننا  بھی جائز نہیں ہے، البتہ عام آدمی کے لیے چاندی کی  انگوٹھی بھی  نہ پہننا بہتر اور افضل ہے۔

رسول اللہ ﷺ کے عمل سے ایک انگوٹھی پہننا ثابت ہے، اس سے زیادہ ثابت نہیں، بلکہ حدیث میں ایک مثقال سے کم کم کی اجازت ہے، نیز ایک سے زائد انگوٹھیاں پہننا مردانہ وقار کے خلاف ہے؛ لہذا اس سے احتراز کیا جائے۔ 

"عن عبد اﷲ بن بریدة، عن أبیه، قال: إن رجلاً جاء إلی النبي صلی اﷲ علیه وسلم وعلیه خاتم من حدید، فقال: مالي أری علیک حلیة أهل النار، فطرحه، ثم جاء ه وعلیه خاتم من شبه، فقال: مالي أجد منک ریح الأصنام، فطرحه، قال:یا رسول اﷲ! من أي شئ أتخذه؟ قال: من ورق ولاتتمه مثقالاً". (سنن النسائي، مقدار ما یجعل في الخاتم من الفضة، النسخة الهندیة ۲/۲۴۵، دارالسلام رقم: ۵۱۹۵، سنن أبي داؤد، باب ماجاء في خاتم حدید، النسخة الهندیة۲/۵۸۰، دارالسلام رقم:۴۲۲۳)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 358):

" (ولايتحلى) الرجل (بذهب وفضة)  مطلقاً، (إلا بخاتم ومنطقة وجلية سيف منها) أي الفضة ... (ولايتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها، فيحرم (بغيرها كحجر) ... ولايزيده على مثقال".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/361):

"(وَتَرْكُ التَّخَتُّمِ لِغَيْرِ السُّلْطَانِ وَالْقَاضِي) وَذِي حَاجَةٍ إلَيْهِ كَمُتَوَلٍّ (أَفْضَلُ)..."
"(قَوْلُهُ: فِي يَدِهِ الْيُسْرَى) وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ فِي خِنْصَرِهَا دُونَ سَائِرِ أَصَابِعِهِ، وَدُونَ الْيُمْنَى، ذَخِيرَةٌ، (قَوْلُهُ: فَيَجِبُ التَّحَرُّزُ عَنْهُ) عِبَارَةُ الْقُهُسْتَانِيِّ عَنْ الْمُحِيطِ: جَازَ أَنْ يَجْعَلَهُ فِي الْيُمْنَى إلَّا أَنَّهُ شِعَارُ الرَّوَافِضِ اهـ وَنَحْوُهُ فِي الذَّخِيرَةِ، تَأَمَّلْ. (قَوْلُهُ: وَلَعَلَّهُ كَانَ وَبَانَ) أَيْ كَانَ ذَلِكَ مِنْ شِعَارِهِمْ فِي الزَّمَنِ السَّابِقِ، ثُمَّ انْفَصَلَ وَانْقَطَعَ فِي هَذِهِ الْأَزْمَانِ، فَلَا يُنْهَى عَنْهُ كَيْفَمَا كَانَ. وَفِي غَايَةِ الْبَيَانِ: قَدْ سَوَّى الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ فِي شَرْحِ الْجَامِعِ الصَّغِيرِ بَيْنَ الْيَمِينِ وَالْيَسَارِ، وَهُوَ الْحَقُّ. (قوله: وترک التختم اهـ) وفي البستان عن بعض التابعین: لایتختم إلا ثلاثة: أمیر أو کاتب أو أحمق اهـ․" (ردالمحتار علی الدرالمختار، ۵/۲۳۱)
فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144007200570
تاریخ اجراء :04-04-2019