قرآنی آیات اور احادیث پر مشتمل میسج بھیجنا اور ان کو ڈیلیٹ کرنا

سوال کا متن:

موبائل میں واٹس ایپ، فیس بک ٹیوٹر وغیرہ پر بذریعہ میسج قرآنی آیات احادیث وغیرہ دست یاب ہوتی ہیں، اگر ان میسجز کو نہیں مٹاتے یا ڈیلیٹ نہیں کرپاتے تو موبائل فون کی میموری کارڈ یا موبائل کا ڈیٹا  فل ہوجاتا اور موبائل ہینگ ہوجاتا ہے، بسا اوقات موبائل فون کام نہیں کرتا، ایسے حالات میں اگر ہم ان آیات یا احادیث وغیرہ کے میسجز کو ڈیلیٹ کردیں تو کیا ان کو مٹانے کا بھی گناہ ہوگا؟ اسی طرح ایک حدیث میں یہ بھی ذکر کیا گیا( اور مجھے پوری طرح حدیث یاد نہیں) کہ ایک زمانہ آئے گا کہ مسلمان اپنے ہاتھوں سے قرآنی آیات وغیرہ کو مٹائیں گے ۔ کیا یہ اس زمرے میں شامل ہوگا؟ 

جواب کا متن:

دین کی نشرو اشاعت، تذکیر اور نصیحت کی غرض سے آیاتِ قرانیہ، احادیثِ مبارکہ، اور دینی پیغام بھیجنا فی نفسہ جائز ہے، تاہم اس میں دو باتوں کا خیال رکھنا  نہایت ضروری ہے:

(۱) مذکورہ پیغامات معتبر اور مستند ہوں، کیوں کہ آج کل دین کے نام پر لاشعوری  میں لوگ غلط باتیں بھی پھیلاتے رہتے ہیں، اس لیے تحقیق اور تسلی کے بغیر مذکورہ  پیغامات نہ بھیجے جائیں، خاص کر  جب وہ قرآنِ مجید یا حدیثِ مبارکہ کی طرف منسوب ہوں۔

(۲) قرآن مجید کی آیات کو اس کے   عربی رسم الخط  (رسمِ عثمانی ) میں لکھاجائَے، اس لیے کہ قرآنِ کریم کی کتابت میں  رسمِ عثمانی (جوکہ عام قرآن کا رسم الخط ہے) کی اتباع واجب ہے، لہذا کسی اور رسم الخط میں قرآنی آیت لکھ کر  پیغام بھیجنا جائز نہیں ہے، البتہ ترجمہ لکھ کر بھیجا جاسکتا ہے۔

          نیز میسج میں قرآنِ  کریم، احادیثِ مبارکہ، اور اسلامی کلمات موصول ہوں تو ان کو پڑھنے کے بعد یا ان سے نصیحت حاصل کرنے کے بعد  اگر ان کومٹانے (ڈیلیٹ) کرنے کی ضرورت درپیش ہو  تو اس کو مٹانے  میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے،  اس لیے کہ فقہاءِ کرام نے  ضرورت کی صورت میں  کاغذ پر سے قرآنی آیات اور احادیث  کو مٹانے کی اجازت دی ہے، لہذا اس طرح کے پیغامات کو ڈیلیٹ کرنے کی بطریقِ اولیٰ گنجائش ہے۔

آپ نے جو روایت ذکر کی ہے، ان الفاظ کے ساتھ حدیث نہیں ملی، البتہ بعض میں روایات میں  قیامت کے  قریب قرآنِ مجید کے اٹھائے جانے کا ذکر ہے، اس کا مصداق یہ ہے کہ قرآنِ مجید اللہ تعالی کے حکم اور منشا سے  لوگوں کے سینوں اور مصاحف سے اٹھالیا جائے گا۔

باقی اس طرح کے پیغامات  اگر صحیح اور مستند ہوں تو  بہتر یہ ہے کہ انہیں پڑھنے سے پہلے ختم نہ کیا جائے، اس لیے کہ اس میں صورۃً اعراض پایا جاتا ہے، لہذا بلاعذر پڑھنے سے پہلے سے ختم (ڈیلیٹ) نہیں کرنا چاہیے۔

        حدیث مبارک میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كذب علي متعمداً، فليتبوأ مقعده من النار»". 

(صحیح مسلم ،1 / 10، باب في التحذير من الكذب على رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

مصنف عبد الرزاق الصنعانی میں ہے:

"عن الثوري، عن أبيه، عن المسيب بن رافع، عن شداد بن معقل، قال الثوري: وحدثني عبد العزيز بن رفيع، عن شداد، أن ابن مسعود قال: «لينتزعن هذا القرآن من بين أظهركم»، قال: قلت: يا أبا عبد الرحمن، كيف ينتزع وقد أثبتناه في صدورنا وأثبتناه في مصاحفنا؟ قال: "يسري عليه في ليلة فلايبقى في قلب عبد منه ولا مصحف منه شيء، ويصبح الناس فقراء كالبهائم، ثم قرأ عبد الله: {ولئن شئنا لنذهبن بالذي أوحينا إليك ثم لا تجد لك به علينا وكيلاً} [الإسراء: 86] ".

(3 / 362، رقم الحدیث: 5980،  باب تعاھد القرآن ونسیانہ، ط: المکتب الاسلامی ، بیروت)

     الاتقان فی علوم القرآن میں ہے:

"وقال ابن فارس: الذي نقوله: إن الخط توقيفي لقوله تعالى: {علم بالقلم علم الأنسان ما لم يعلم} {ن والقلم وما يسطرون} وإن هذه الحروف داخلة في الأسماء التي علم الله آدم. وقد ورد في أمر أبي جاد ومبتدأ الكتابة أخبار كثيرة ليس هذا محلها وقد بسطتها في تأليف مفرد. فصل : القاعدة العربية أن اللفظ يكتب بحروف هجائية مع مراعاة الابتداء والوقوف عليه وقد مهد النحاة له أصولا وقواعد وقد خالفها في بعض الحروف خط المصحف الإمام، وقال أشهب: سئل مالك: هل يكتب المصحف على ما أحدثه الناس من الهجاء؟ فقال: لا إلا على الكتبة الأولى رواه الداني في المقنع، ثم قال ولا مخالف له من علماء الأمة، وقال في موضع آخر: سئل مالك عن الحروف في القرآن الواو والألف، أترى أن يغير من المصحف إذا وجد فيه كذلك؟ قال: لا، قال أبو عمرو: يعني الواو والألف والمزيدتين في الرسم المعدومتين في اللفظ  نحو الواو في "أولوا"،وقال الإمام أحمد: يحرم مخالفة مصحف الإمام في واو أو ياء أو ألف أو غير  ذلك وقال البيهقي في شعب الإيمان: من كتب مصحفا فينبغي أن يحافظ على الهجاء الذي كتبوا به هذه المصاحف، ولا يخالفهم فيه ولا يغير مما كتبوه شيئا فإنهم كانوا أكثر علما وأصدق قلبا ولسانا وأعظم أمانة منا فلا ينبغي أن يظن بأنفسنا استدراكاً عليهم". (4 / 168، النوع السادس والسبعون: فی مرسوم الخط وآداب کتابتہ ، ط: مجلس العلمی، ہند)

      فتاوی شامی میں ہے:

"الكتب التي لا ينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي". (6 / 422، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید)

      فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو محا لوحاً كتب فيه القرآن واستعمله في أمر الدنيا يجوز". (5 / 322، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن،ط: رشیدیہ) فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144003200447
تاریخ اجراء :07-12-2018