کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا مانگی جا سکتی ہے؟

سوال کا متن:

کیا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا مانگی جاسکتی ہے؟

جواب کا متن:

توسل کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں:

1) توسل بالاعمال: یعنی اپنے کسی نیک عمل کے وسیلے سے یوں دعا کرنا کہ اے اللہ! فلاں عمل کی برکت سے میری فلاں حاجت پوری فرما. یہ صورت بالاتفاق وبلااختلاف جائز ہے اور اس کی دلیل وہ مشہور اور صحیح حدیث ہے جس میں تین افراد ایک غار  میں پھنس گئے تھے اور تینوں نے اپنے نیک عمل کے وسیلے سے دعا کی تو اللہ تعالی نے اس مصیبت سے انہیں نجات عطا فرمائی. (بخاری 1 /  493 قدیمی)

2) توسل بالذوات: یعنی اللہ سے کسی نبی علیہ السلام، صحابی رضی اللہ عنہ یا کسی ولی سے اپنے تعلق کا واسطہ دے کر دعا کرنا. یہ صورت بھی جمہور اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہے، چناچہ قرآن کریم کی آیت سے ثابت ہے کہ بنوقریظہ اور بنونضیر کے یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آپ کے وسیلے سے فتح ونصرت کی دعا کیا کرتے تھے. (البقرۃ:89)خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فقرا ومہاجرین کے توسل سے دعا فرماتے تھے. (مشکاۃ : 2 / 447 قدیمی)

اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ قحط سالی کے سال حضرت عباس رضی اللہ عنہ (جو اس وقت حیات تھے) کے وسیلے سے دعا فرماتے تھے. ( نیل الاوطار : 4 / 8 طبع مصر)

صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: 

"عن أنس بن مالک أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه کان إذا قحطوا استسقی بالعباس بن عبدالمطلب رضي الله عنه فقال: اللهم إنا کنا نتوسل إلیک بنبینا ﷺ فتسقینا، وإنا نتوسل إلیک بعم نبینا فاسقنا! قال: فیسقون". (صحیح البخاري، کتاب العیدین، أبواب الاستسقاء، باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا، (1/137) و کتاب المناقب، ذکر عباس بن عبدالمطلب، (1/526) ط: قدیمي)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قحط کے زمانے میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے دعا فرماتے تھے، چناں چہ یوں کہتے تھے: اے اللہ ہم آپ سے اپنے نبی ﷺ کے وسیلے سے دعاکرکے بارش طلب کرتے تھے، اب آپ ﷺ کے چچا کے وسیلے سے آپ سے بارش کی دعا کرتے ہیں، چناں چہ بارش ہوجاتی۔

نیز رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نے اپنی تکلیف کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے اسے اہتمام سے وضو کرکے دو رکعت پڑھنے کے ساتھ  اپنے وسیلے سے دعا کرنے کے الفاظ تلقین فرمائے، چناں چہ اسی مجلس میں اس کی بینائی لوٹ آئی۔ (جامع ترمذی، معجم کبیر للطبرانی)

بہرحال انبیاء، اولیاء یا نیک اعمال کے توسل سے دعا کرنا جائز بلکہ اجابتِ دعا میں موٴثر ہے، دعا میں توسل کا ثبوت متعدد احادیث سے ہے۔

"عن عثمان بن حنیف، أن رجلاً ضریر البصر أتی النبي صلی الله علیه وسلم فقال: ادع الله أن یعافیني قال: إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فهو خیر لک ، قال: فادعه، قال: فأمره أن یتوضأ فیحسن وضوئه ویدعو بهذا الدعاء: اللهم إني أسألک وأتوجه إلیک بنبیک محمد نبي الرحمة، إني توجهت بک إلی ربي في حاجتي هذه لتقضي لي، اللهم فشفعه في. قال الترمذي: هذا حدیث حسن صحیح غریب. وزاد الحاکم في هذه الواقعة: ”فدعا بهذا الدعاء فقام وقد أبصر“. (۱/۳۱۳، ۵۱۹، ۵۲۶)

"أخرج الإمام أحمد وغيره بسند صحيح عن عثمان بن حنيف أن رجلاً ضرير البصر أتى النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال : ادع الله أن يعافيني . فقال صلى الله عليه وسلم : (إن شئت دعوت لك ، وإن شئت أخّرتُ ذاك ، فهو خير لك. [وفي رواية : (وإن شئتَ صبرتَ فهو خير لك)] ، فقال : ادعهُ. فأمره أن يتوضأ ، فيحسن وضوءه ، فيصلي ركعتين، ويدعو بهذا الدعاء : اللهم إني أسألك ، وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة ، يا محمد إني توجهتُ بك إلى ربي في حاجتي هذه ، فتقضى لي ، اللهم فشفّعه فيَّ وشفّعني فيه) . قال : ففعل الرجل فبرأ".

شفاء السقام للسبكي (ص: ٣٥٨)میں ہے:

"إن التوسل بالنبي صلي الله عليه وسلم جائز في كل حال قبل خلقه و بعد خلقه في مدة حياته في الدنيا و بعد موته في مدة البرزخ".

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا توسل ہر حال میں جائز ہے، چاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق سے پہلے ہو یا تخلیق کے بعد ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی زندگی میں ہو یا وصال کے بعد حیات برزخی میں ہو۔

حجة الله البالغة میں ہے:

"و من أدب الدعاء تقديم الثناء إلى الله و التوسل بنبي الله ليستجاب". (٢/ ٦)

ترجمہ: دعا کے آداب میں سے یہ ہے کہ پہلے اللہ کی حمد  و ستائش کی جائے ، اور اللہ کے نبی کے وسیلہ سے دعا کی جائے؛ تاکہ قبولیت کا شرف حاصل ہو۔

البتہ کسی نبی یا ولی سے حاجت مانگنا شرک ہے. (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی کتاب "اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم" اور فتاوی بینات کی جلد دوم)

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوال کے جواب کا حاصل یہ ہوا کہ توسل بالاعمال اور توسل بالذوات دونوں علمائے دیوبند سمیت جمہور اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہیں، قرآنِ کریم واحادیثِ مبارکہ اور کتبِ فقہ میں اس کی تصریحات موجود ہیں، علمائے دیوبند کی کتاب المہند علی المفند میں بھی واضح طور پر یہی عقیدہ مذکور ہے، لہذا توسل کا کلی طور پر انکار یا نبی اور ولی میں فرق کرنا درست نہیں، تاہم دعا کی قبولیت کے لیے وسیلہ واجب یا ضروری نہیں، توسل کا انکار کیے بغیر بلاوسیلہ دعا مانگنا بھی جائز ہے، اور توسل والی دعا کی قبولیت کا اللہ کے ذمے لازم سمجھنا بھی درست نہیں ہے. فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144007200278
تاریخ اجراء :23-03-2019