نبی اور امام کے معنی

سوال کا متن:

نبی اور امام کے کیا معنی ہیں؟

جواب کا متن:

’’نبی‘‘  عربی کالفظ ہے،جوکہ ’’ نَبَأ ‘‘ سے ماخوذ ہے ، جس کے لفظی معنیٰ ’’خبر‘‘کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں ’’نبی‘‘سے مرادوہ شخصیت ہے جسے اللہ کی طرف سے مختلف شرعی احکام وتعلیمات کی خبردی جاتی ہے؛ تاکہ وہ یہ احکام وتعلیمات اللہ کے بندوں تک پہنچا دے۔

نبی اور رسول ان دونوں کے معنی بعض حضرات کے نزدیک ایک ہیں اور بعض کے نزدیک ان دونوں میں کچھ فرق بھی ہے، چنانچہ معارف القرآن میں مولانامفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’رسول اور نبی کی تعریف میں متعدد اقوال ہیں، آیات مختلف میں غور کرنے سے جو بات احقر کے نزدیک محقق ہوئی وہ یہ ہے کہ ان دونوں کے مفہوم میں نسبت عموم و خصوص من وجہ کی ہے۔ رسول وہ ہے جو مخاطبین کو شریعتِ جدیدہ پہنچائے خواہ وہ شریعت خود اس رسول کے اعتبار سے بھی جدید ہو جیسے تورات وغیرہ یا صرف ان کی اُمت کے اعتبار سے جدید ہو، جیسے اسماعیل (علیہ السلام) کی شریعت وہ دراصل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قدیم شریعت ہی تھی، لیکن قوم جرہم جن کی طرف ان کو مبعوث فرمایا تھا ان کو اس شریعت کا علم پہلے سے نہ تھا، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی کے ذریعہ ہوا۔ اس معنی کے اعتبار سے رسول کے لیے  نبی ہونا ضروری نہیں، جیسے فرشتے کہ وہ رسول تو ہیں مگر نبی نہیں ہیں یا جیسے حضرت عیسیٰٰ (علیہ السلام) کے فرستادہ قاصد جن کو آیت قرآنۘاِذْ جَاۗءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ میں رسول گہا گیا ہے حال آں کہ وہ انبیاء نہیں تھے۔

اور نبی وہ ہے جو صاحب وحی ہو خواہ شریعتِ جدیدہ کی تبلیغ کرے یا شریعتِ قدیمہ کی جیسے اکثر انبیاءِ بنی اسرائیل شریعت موسویہ کی تبلیغ کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک اعتبار سے لفظِ رسول نبی سے عام ہے اور دوسرے اعتبار سے لفظِ  نبی بہ نسبت رسول کے عام ہے جس جگہ یہ دونوں لفظ ایک ساتھ استعمال کیے گئے جیسا کہ آیاتِ مذکورہ میں رسولاً نبیاً، آیا ہے وہاں تو کوئی اشکال نہیں کہ خاص اور عام دونوں جمع ہو سکتے ہیں کوئی تضاد نہیں، لیکن جس جگہ یہ دو لفظ باہم متقابل آئے ہیں جیسے وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِيٍّمیں تو اس جگہ بقرینہ مقام لفظِ نبی کو خاص اس شخص کے معنی میں لیا جائے گا جو شریعتِ سابقہ کی تبلیغ کرتا ہے‘‘۔

اور ’’امام‘‘ لغت میں ہرایسے شخص کو کہاجاتاہے جس کی اقتدا  کی جائے ، اور اس کی جمع ’’ ائمہ‘‘ ہے،چنانچہ القاموس المحیط میں ہے:

"والا مامُ : ما ائْتُمَّ به من رئيسٍ أو غيرِهِ". (1/1392)

تاج العروس میں ہے :

" والإمامُ ) بالكَسْرِ : كُلّ ( ما ائْتَمَّ به ) قوم ( من رَئيسٍ أو غَيْره )، كانوا على الصِّراط المستقيم أو كانوا ضالِّينَ . وقال الجوهريّ : الإمام : الَّذِي يُقْتَدَى به". (31/243)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"الإمام: القدوة، ومنه قيل لخيط البناء: إمام، وللطريق: إمام، لأنه يؤم فيه للمسالك، أي يقصد". (2/108)

اصطلاح کے اعتبار سے امام اور امامت کالفظ ایسے شخص کے لیے بولاجاتاہے  جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب کی حیثیت سے دین کو قائم کرنے والاہو، دین کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتاہو اور دنیاوی معاملات میں لوگوں کے مصالح کے مطابق شریعت کی روشنی میں ان کی راہ نمائی کرتاہو۔یعنی شریعت کی اصطلاح میں” امام“ سے مراد مسلمانوں کا خلیفہ اور ان کا حاکم  ہوتا ہے۔ نماز میں امامت اورمسلمانوں کے امیر یعنی امام المسلمین  میں فرق کر نے کے لیے   کبھی امامتِ صغریٰ اور  امامتِ ِکبریٰ  کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔

یہاں  اس بات کا جاننا اور سمجھنا  ضروری ہے  اہلِ سنت والجماعت لفظِ ”امام “کا استعمال عقیدہ اور فقہی مباحث میں کرتے ہیں اور اس سے مراد مسلمانوں کا حاکم ہوتاہے۔اور روافض  ”امام'' اور''امامت“ کے لفظ کواپنے خاص عقائدمیں  سے گردانتے ہیں ،وہ اپنے امام(خلیفہ) کو معصوم اور منصوص من اللہ سمجھتے ہیں، ان کا یہ نظریہ قرآن وحدیث کی رو سے بالکل غلط اور باطل ہے، جس پر تفصیلی بحث عقائد کی کتب میں کی گئی ہے۔

المواقف میں ہے:

"قال قوم: الإمامة رياسة عامة في أمور الدين والدنيا. والأولى أن يقال: هي خلافة الرسول في إقامة الدين بحيث يجب اتباعه على كافة الأمة". (3/574)

مظاہر حق میں ہے:

" بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ " امامت وخلافت کی سزا وار وہی ذات ہوسکتی ہے جو " معصوم " ہوہاشمی " ہو اور اس کے ہاتھ پر کوئی ایسا معجزہ ظاہر ہو جس سے اس کی راستی اور سچائی جانی جائے " تو یہ محض شیعوں کا خرافاتی نظر یہ ہے اور ان کی جہالت کا آئینہ دار بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہی نظریہ ان کی گم راہیوں کی تمہید اور مقدمہ ہے جن کے ذریعہ انہوں نے ملتِ اسلامیہ میں افتراق وانتشار اور طبقاتی وگروہی محاذ آرائی کی بنیاد ڈالی ۔ ان میں سے ایک بڑی گم راہی تو ان کی یہی ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے  علاوہ باقی تمام خلفاء کی امامت وخلافت کو بے اصل اور باطل مانتے ہیں"۔فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143906200050
تاریخ اجراء :01-03-2018