شمویل نام کا تلفظ اور شمویل علیہ السلام کا تذکرہ

سوال کا متن:

میں نے ایک سوال "محمد شمویل" نام کے حوالے سے ارسال کیا تھا، اس کے متعلق مزید معلوم کرنا ہے، ذیل میں پہلے سابقہ سوال اور جواب ہے، پھر اس سے متعلق سوال درج کررہاہوں:

سوال:

"محمد شمویل" کے معنی کیا ہیں؟

جواب :

"شمویل" اصل میں  "اشمویل" ہے، یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے، عبرانی زبان میں اس کے معنی  "اسماعیل" کے ہیں یعنی ” اللہ نے میری دعاسن لی "، کثرتِ استعمال کی وجہ سے "اشمویل"، "شمویل" رہ گیا، یہ بنی اسرائیل کے قضاۃ اور اور پیغمبروں میں سے تھے۔(قصص القرآن، سیوہاری)۔ اور لفظ "محمد" ہمارے یہاں ناموں کے شروع میں برکت کے لیے لگایا جاتا ہے، اس لیے "محمد شمویل" نام رکھنا درست ہے۔ فقط واللہ اعلم 

اب آپ یہ بھی بتادیجیے کہ اس کا تلفظ کیسے کریں گے، شین پر پیش لگاکر یا زبر لگاکر؟ میرے بیٹے کا نام ہے، وہ پانچ سال کا ہے، ہم اسے  shumoil یعنی شین پر پیش لگاکر پکارتے ہیں، اور ان پیغمبر کا ذکر ہمیں کہاں ملے گا، قرآن میں یا کس کتاب میں، گوگل پر معلومات نہیں مل رہیں!

جواب کا متن:

شمویل، شین پر زبر کے ساتھ ہے، اس کو انگریزی میں Samuelاور عبرانی میں שמואלلکھتے ہیں، اہلِ کتاب انہیں "صمویل" پکارتے ہیں۔

 حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کی وفات سے تقریباً 350 سال تک  بنی اسرائیل  کے خاندانوں ا ورقبیلوں   میں ” سردار “    حکومت  کرتے  اور ”قاضی“  معاملات   کے فیصلے کرتے ، جب کہ  نبی ان تمام امور کی نگرانی کرتے اور دعوت  وتبلیغ کرتے، ا س عرصے میں بنی اسرائیل  کا کوئی  بادشاہ نہ تھا۔یہی وجہ  تھی کہ  چوتھی صدی  کے آخر میں فلسطینی  قوم نے  ان پر زبردست حملہ کیا اور شکست  دے کر  متبرک صندوق ”تابوتِ سکینہ ”  بھی چھین  کرلےگئے ۔

مصر وفلسطین  کے درمیان  آباد  عمالقہ قوم   میں سے "جالوت " نامی  حکم ران  نے بنی اسرائیل  کی آبادیوں  پر قبضہ  کرلیا، بے شمار  لوگوں  کو مغلوب  کردیا اور ان  کے بیٹوں  کو قیدی بنالیا  ۔ یہ وہ نا زک دور تھا  جب  بنی اسرائیل  میں کوئی نبی ورسول   موجود نہ تھا، نہ ہی کوئی سردار،  خاندان نبوت  میں صرف ایک  حاملہ عورت   باقی  رہ گئی تھی  اس عورت کے ہاں  ایک لڑکا پیدا  ہوا۔ جس کا نام "شموئیل" رکھا۔عبرانی  زبان میں اس  کے معنی  "اسماعیل" کے ہیں  یعنی  ” اللہ نے  میری دعاسن لی“ ۔  

آپ علیہ السلام کی تربیت کی ذمہ داری  بنی اسرائیل کے ایک بزرگ  نے  اپنے ذمہ لی۔  "شموئیل"  نے تورات  حفظ  کی اور دینی  تعلیم حاصل کی، جب جوان  ہوئے تو بنی اسرائیل  میں سب سے ممتاز نظر آنے لگے ۔ایک دن حضرت جبرئیل علیہ السلام  ان کے پا س آئے  اور فرمایا : اللہ نے آپ کو آپ کی قوم کی طرف  پیغمبر بنا کر بھیجا  ہے۔ ( قصص القرآن  )

ان کا نسب اس طرح ہے: شمویل  بن بالی  بن علقمہ  بن  یرخام بن الیہوبن  تہوین  بن صوف  بن علقمہ  بن مباحث  بن عموصا بن عزدیا۔

مقاتل ؒ  فرماتے ہیں :

 ” یہ حضرت  ہارون علیہ السلام  کے ورثاء میں  سے ہیں “۔  ( ماخذ ۔ خازن جلد 2 ، روح المعانی  جلد 2 ص 142 ۔ تاریخ ابن کثیر جلد 2ص 5)

قرآن مجید  میں سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 246  

 أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ  ( سورة البقرة) 

 ترجمہ: کیا تمہیں موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے گروہ کے اس واقعے کا علم نہیں ہوا جب انہوں نے اپنے ایک نبی سے کہا تھا کہ ہمارا ایک بادشاہ مقرر کردیجیے؛ تاکہ (اس کے جھنڈے تلے) ہم اللہ کے راستے میں جنگ کرسکیں۔

اس میں جس نبی کا تذکرہ ہے، اکثر مفسرین نے اس سے "شمویل علیہ السلام" مراد لیے ہیں،اس آیت کے ذیل میں مستند اردو تفاسیر  میں ان کا واقعہ دیکھا جاسکتا ہے۔ نیز مزید تفصیل کے لیے "قصص القرآن"، مولف: مولانا حفظ الرحمن سیوہاری کا مطالعہ مفید رہے گا۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144004200182
تاریخ اجراء :20-12-2018