بد فالی لینے کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں

سوال کا متن:

میری شادی جہاں ہوئی ہے، میرے شوہر اور سسرال والے کہتے ہیں کہ کوئی سی بھی کچی دال نہیں پیسنا اور نہ کوئی سا اچار ڈالنا۔ہمارے خاندان میں جس بہو نے بھی یہ کیا ہے اس سے گھر میں کسی کو جانی نقصان پہنچ سکتا ہے،  ہم کو راس نہیں ہے، ہماری چچی نے بات نہیں مانی تھی، انہوں نے دال پیس لی تھی اور اچار ڈالا تھا۔ اس وجہ سے ان کے شوہر کا بہت زبردست ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔میری شادی کو دس سال ہو گئے ہیں۔میں نے ان کی بات مان لی ہے۔ لیکن میرے دل میں خیال آتا ہے یہ کوئی بدعت تو نہیں، اگر ہے تو اس کا گناہ کس کے سر ہے؟ موت زندگی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اب مجھ کو بتا دیں میں کیا کروں؟ میں کافی بار کہہ چکی ہوں،  میں معلوم کروں گی تاکہ اگر جس نے بھی یہ بات ایجاد کی ہے،  گناہ اس کے سر ہو گا،  یا روکنے والے کے  یا بات ماننے والے کے؟  اس مسئلے کا حل بتا دیجیے!

جواب کا متن:

واضح رہے کہ کائنات کی تمام چیزوں میں تصرف کرنے والے اللہ تعالیٰ ہیں، اور اس کی مرضی کے بغیر کسی کو نہ کوئی خیر پہنچ سکتی ہے اور نہ ہی شر، لہذا اس قسم کے توہمات رکھنا شرعاً درست نہیں،  رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توہمات و بد فالی  لینے  کی سختی سے تردید فرمائی ہے،  لہذا ان توہمات سے اپنے ذہنوں کو صاف کرنا اور اللہ پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے ان توہمات کی تردید کرنا ضروری ہے۔

شیطان اس طرح کے توہمات وبدعقیدگی ذہن میں ڈال کر اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان کم زور کرتاہے،  ایسا عقیدہ و توہم پرستی ناجائز ہے، سائلہ کا خیال اور عقیدہ درست ہے، اگر وہ اس گھر میں مجبوری کی وجہ سے دال نہیں پیس سکتی یا اچار نہیں ڈال سکتی تو اسے چاہیے کہ اپنے درست عقیدے پر ثابت قدم رہے، اس صورت میں امید ہے کہ اسے گناہ نہیں ہوگا۔ نیز اسے چاہیے کہ حکمت و تدبیر کے ساتھ گھر والوں کے اس باطل و بے حقیقت توہم کی اصلاح کی کوشش کرتی رہے۔جو اس طرح کا عقیدہ رکھے اور بدشگونی کا شکار ہو وہ ایمانی کم زوری کی وجہ سے قابلِ مؤاخذہ ہوگا۔  فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008201754
تاریخ اجراء :30-05-2019