ختمِ قرآن کے موقع پر مٹھائی تقسیم کرنے اور ختمِ بخاری کے موقع پر دعوتیں کرنے کا شرعی حکم

سوال کا متن:

ختمِ قرآن کے موقع پر مٹھائی تقسیم کرنا کیسا ہے؟  اس میں کتنا ثواب ہے؟  اگر کوئی شخص مسجد میں ختمِ قرآن کے موقع پر اپنی خوشی سے مٹھائی تقسیم کرنا چاہے تو انتظامیہ کی کیا ذمہ داری ہے؟ اس کو منع کیا جائے یا اجازت دی جائے؟

اسی طرح ختمِ بخاری کے موقع پر بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بڑی بڑی دعوتیں ہوتی ہیں، مدارس بھی انتظام کرتے ہیں، طلباء بھی الگ الگ انتظام کرتے ہیں، اور لوگوں کو کھانے کی دعوتِ عام دیتے ہیں، یہ سب کرنا کیسا ہے؟ براہِ کرم وضاحت فرمائیں!

جواب کا متن:

1- تراویح میں تکمیلِ قرآنِ کریم کے موقع پر مٹھائی تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے، اگر ختم  پر مٹھائی تقسیم کرنے  کے لیے لوگوں کو چندہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہو اور بچوں کا  رش اور شوروغل ہوتا ہو، مسجد کا فرش خراب ہوتا ہو یا اسے لازم اور ضروری سمجھا جاتا ہو تو اس کا ترک کردینا ضروری ہے، اور اگر  یہ مفاسد نہ پائے جائیں، بلکہ کوئی اپنی  خوشی سے،  چندہ کیے بغیر تقسیم کردے یا امام کے لیے لے آئے تو اس میں مضائقہ نہیں ہے، ایسی صورت میں  بہتر یہ ہے کہ خشک چیز تقسیم کی جائے؛ تاکہ مسجد کا فرش وغیرہ خراب نہ ہو اور مسجد کے اندر تقسیم کرنے کے بجائے دروازے پر تقسیم کردیا جائے۔(مستفاد فتاوی رحیمیہ 6/243)

تکمیلِ قرآنِ کریم کے موقع پر مٹھائی تقسیم کرنے کا مستقل اجر وثواب کتابوں میں موجود نہیں ہے، اور اسے مستقل طور پر فضیلت کا باعث سمجھ کر تقسیم بھی نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم اگر کوئی ریا ونمود کے بغیر خلوصِ نیت کے ساتھ تکمیلِ قرآنِ کریم کے موقع پر (جب کہ شرکاء عموماً دعا میں شرکت کرتے ہیں اور عبادت میں شریک ہوتے ہیں) شیرینی یا کھانے کا انتظام کرے کہ اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے کچھ کھاپی کر خوش ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ مجھے اس پر اجر عطا فرمائیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر اجر و ثواب عطا فرمائیں گے۔ 

2- بخاری شریف کے ختم کے موقع پرکھانے وغیرہ کی دعوت کرنا نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی شریعت کا حصہ ہے، البتہ اگر کوئی طالب علم یا مدرسہ والے چندہ کیے بغیر اپنی خوشی سے (جب کہ وہ تکلف کے بغیر مالی استطاعت رکھتے ہوں) اپنی طرف سے اس موقع پر دعوت کریں اور اسے لازم اور دین کا حصہ  نہ سمجھیں تو اس کی گنجائش ہے۔ 

فی زمانہ چوں کہ یہ ایک رسم بنتی جارہی ہےنیز بسا اوقات اس طرح کی دعوتوں میں تکلف کیا جاتاہے ، یعنی مالی استطاعت نہ ہونے کے باوجود یہ دعوتیں کی جاتی ہیں، اور کبھی صاحبِ حیثیت طلبہ پرتکلف دعوت کرتے ہیں، اس سے مالی طور پر کم زور طلبہ  احساس کم تری کا شکار ہوجاتے ہیں؛ اس لیے اس طرح کی دعوتوں کا ترک کرنا بہر حال اولیٰ ہے۔ اور اگر اس میں کھلاوا یا تکلفِ ممنوع ہو تو پھر یہ دعوت جائز نہیں ہوگی۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008201912
تاریخ اجراء :04-06-2019