انسان کے تین والدین ہوتے ہیں، کیا یہ حدیث سے ثابت ہے؟

سوال کا متن:

ہر انسان کے تین ماں باپ ہوتے ہیں: اس کے حقیقی والدین۔ دوسر ے اس کے سسرالی والدین۔ تیسرے اس کے تعلیمی والدین۔

سوال یہ ہے کہ آیا یہ کسی حدیث سے ثابت ہے؟  یا اکابر کے کسی ملفوظ سے ؟  اگر ہے تو زوجین ایک دوسرے کے والدین کو کس رشتے سے موسوم کریں؟

جواب کا متن:

( انسان کے تین والدین ہوتے ہیں۔۔۔الخ) یہ بات حدیث سے ثابت نہیں، اور اس قول کے نسبت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں۔

البتہ اساتذہ کرام کو مجازاً باپ قرار دیا جاتا ہے، کیوں کہ اساتذہ انسان کی روحانی وجود کو جلا بخشنے کا ذریعہ ہوتے ہیں، جس طرح سے حقیقی والدین انسان کے وجودِ جسمانی کا سبب ہوتے ہیں، یہ مشائخ کے قول سے ثابت ہے۔

  رہی بات ساس سسر کی تو باعتبارِ حرمتِ مؤبدہ مثل حقیقی والدین کے ہوتے ہیں، باعتبارِ وراثت اور نسبت حقیقی والدین اور ساس سسر میں فرق ہے۔ البتہ اخلاقاً احترام اور خدمت میں ساس، سسر کو  والدین کا رتبہ دینا چاہیے، اگر حقیقی والدین اور ساس سسر کی خدمت میں تعارض ہو تو حقیقی والدین کو ترجیح ہوگی، البتہ جہاں تعارض نہ ہو تو ساس سسر کی خدمت کو بھی والدین کے مثل جاننا چاہیے۔ اس لیے  کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے جس طرح سے حقیقی والدین کو انسان کے لیے نعمت شمار کیا ہے، اسی طرح  سسرالی رشتوں کو بھی نعمت شمار کیا ہے، ارشاد ربانی ہے:  "فَجَعَلَهُ نَسَبًا و صِهْرًا" ...الآية

" وَقَدْ قَالَ عُلَمَاءُ الْمُصْطَلَحِ : " الْأَشْيَاخُ آبَاءٌ فِي الدِّينِ، وَقَالَ لِي شَيْخَانِ: أَبُو التَّقِيِّ الشَّيْخُ عَبْدُ الْقَادِرِ التَّغْلِبِيُّ الشَّيْبَانِيُّ أَغْدَقَ اللَّهُ الرَّحْمَةَ عَلَى رَمْسِهِ : " شَيْخُك أَبُوك بَلْ أَعْظَمُ حَقًّا مِنْ وَالِدِك؛ لِأَنَّهُ أَحْيَاك حَيَاةً سَرْمَدِيَّةً وَلَا كَذَلِكَ وَالِدُك " أَوْ كَلَامًا هَذَا مَعْنَاهُ، وَقَالَ لِي : " النَّاسُ يَقُولُونَ فُلَانٌ ـ يَعْنِي : نَفْسَهُ ـ لَا وَلَدَ لَهُ "، وَهَلْ لِأَحَدٍ مِنْ الْوَلَدِ مِثْلُ مَا لِي ؟!، يَعْنِي : تَلَامِذَتَهُ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ " . " غذاء الألباب " ( ١/ ٣٩٠)فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144004200907
تاریخ اجراء :30-01-2019