عید کی نماز میں ایک رکعت پڑھ کر سجدہ سہو کرکے سلام پھیرنے کا حکم، عید کی نماز میں سجدہ سہو کرنے کا حکم، ایک امام کا ایک ہی مسجد میں دو بار عید کی نماز پڑھانے کا حکم

سوال کا متن:

ہماری مسجد میں نمازِ عید الفطر کی نماز کچھ یوں پڑھی گئی:

امام نے نماز شروع کروائی، ثناء کے بعد تکبیریں کہیں، پھر سورہ  فاتحہ،  پھر کوئی سورت اور پھر پہلی رکعت  میں 3 تکبیریں کہہ دیں۔  اور پھر امام کو معلوم ہوا کہ غلطی ہو گئی؛ لہذا اس نے سجدہ سہو کیا، سجدہ سہو کے بعد وہ التحیات پر بیٹھ گیا اور سلام پھیر کر بیٹھ گیا۔

مگر یہاں آپ یہ بتائیں:

1- کیا ایک رکعت رہنے سے نماز عید ہو گئی؟

2-  کیا نمازِ عید میں سجدہ سہو کی اجازت ہے؟

3-  کیا امام کو دوبارہ نمازِ عید کروانی چاہیے تھی؟

4-  کیا ایک امام دو بار ایک ہی مسجد میں نمازِ عید کروا سکتا ہے؟

جواب کا متن:

1) دو رکعت والی نماز میں صرف ایک رکعت پڑھنے کی صورت میں نماز نہیں ہوگی چاہے سجدہ سہو کرے یا نہ کرے؛ لہٰذا مذکورہ صورت میں عید کی نماز میں ایک رکعت رہنے کی وجہ سے عید کی نماز ادا نہیں ہوئی۔

2)عید کی نماز میں  سجدہ سہو واجب ہونے کی صورت میں اگر مجمع زیادہ ہو تو مجمع کے انتشار ( غلط فہمی) میں پڑنے کا اندیشہ ہونے کی صورت میں  سجدہ سہو نہ کرنا افضل ہے، لیکن عید کی نماز میں سجدہ سہو کرنا ممنوع نہیں ہے۔

3)صورتِ مسئولہ میں ایک رکعت پر سلام پھیرنے کی وجہ سے چوں کہ نماز نہیں ہوئی تھی؛ اس لیے امام صاحب کو نماز دوبارہ پڑھانی چاہیے تھی۔ اگر دوبارہ جماعت سے عید کی نماز ادا کرلی گئی تھی تو بہتر۔ اگر عید کے دن زوال سے پہلے پہلے نماز ادا نہیں کی گئی تو اس کے بعد عید کی نماز کی قضا نہیں ہوگی، تمام شرکاء کو استغفار کرنا چاہیے۔

4) ایک امام ایک مرتبہ عید کی نماز صحیح پڑھانے کے بعد دو بارہ نہیں پڑھاسکتا ہے، البتہ اگر پہلی بار پڑھی گئی نماز فاسد ہوگئی ہو یا ناقص ہونے کی وجہ سے واجب الاعادہ ہو تو اس پہلی نماز کا اعادہ کرنے کی صورت میں وہی پہلے والے امام صاحب امامت کرواسکتے ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 92):

" (والسهو في صلاة العيد والجمعة والمكتوبة والتطوع سواء) والمختار عند المتأخرين عدمه في الأوليين لدفع الفتنة كما في جمعة البحر، وأقره المصنف، وبه جزم في الدرر.

 (قوله: عدمه في الأوليين) الظاهر أن الجمع الكثير فيما سواهما كذلك كما بحثه بعضهم ط وكذا بحثه الرحمتي، وقال خصوصاً في زماننا. وفي جمعة حاشية أبي السعود عن العزمية: أنه ليس المراد عدم جوازه، بل الأولى تركه لئلا يقع الناس في فتنة. اهـ.

(قوله: وبه جزم في الدرر) لكنه قيده محشيها الواني بما إذا حضر جمع كثير، وإلا فلا داعي إلى الترك ط".فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008201956
تاریخ اجراء :06-06-2019