مدرسہ میں پنج وقتہ نماز پڑھنے سے کیا یہ جگہ شرعی مسجد کہلائے گی؟

سوال کا متن:

ہمارے گھر کے سامنے ایک گھر کو خرید کر اس میں مدرسہ قائم کیا گیا, بعد ازاں مدرسے کے ساتھ وہاں پانچوں وقت باجماعت نماز ہونے لگی، مدرسہ نماز کے اوقات میں بند کر دیا جاتا ہے، کیا ایسی مسجد کو شرعی مسجد کہہ سکتے ہیں اور وہاں نماز پڑھنے سے باجماعت نماز کا ثواب ملے گا ؟

جواب کا متن:

کوئی جگہ مسجد شرعی اس وقت ہوتی ہے جب اسے خاص نماز پڑھنے کے لیے مختص کردیا جائے،بندوں کا حق اس سے متعلق نہ رہے، ایسا کرنے کے بعد وہ جگہ تحت الثریٰ سے ثریا تک یعنی زمین سے آسمان تک مسجدہوجاتی ہے، اس کے کسی حصہ  کو نماز اور اس کےمتعلقہ امور کے علاوہ دوسرے کام میں استعمال کرنا جائز نہیں ہوتا۔

قال فی الدر المختار: یزول ملکہ عن المسجد والمصلی بالفعل وبقولہ جعلتہ مسجدًا وفی القہستانی: ولابد منإفرازہ أي تمییزہ عن ملکہ من جمیع الوجوہ فلو کان العلو مسجدًا والسفل حوانیت أوبالعکس لا یزول ملکہ لتعلق حق العبد بہ (شامی:۳/۴۰۵) وقال أیضًا إذا جعل سِرْدابًا لمصالحہ جاز ولو جعل لغیرہا أو جعل فوقہ بیتًا وجعل باب المسجد إلی طریق وعزلہ عن ملکہ لا یکون مسجدًا (شامی:۳/۴۰۶) کما لو جعل وسط دارہ مسجدًا وأذن للصلاة فیہ حیث لا یکون مسجدًا إلا إذا شرط الطریق․ (شامی: ۳/۴۰۶)

 اس تفصیل کے بعد  آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ جگہ خریدنے والے نے جس مقصد کے لیے وقف کی ہے اسی کے لیے وہ قراردی جائے گی۔اگر مدرسے کے لیے وقف ہے تو اسے مسجد نہیں بنایا جاسکتا، اس لیے وہ شرعی مسجد نہیں کہلائے گی  اورمسجد میں نمازپڑھنے کا ثواب نہیں ملے گا، البتہ وہاں باجماعت نماز پڑھنے سے جماعت کا ثواب ملے گا، مسجد میں جماعت کا ثواب الگ ہے جو مسجد کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143808200022
تاریخ اجراء :26-05-2017