جمعہ کی اذان اول بیان سے پہلے دی جائے یا بعد میں ؟

سوال کا متن:

اذانِ اول کے بعد کام کاج بالکل حرام ہے، اگر ایک علاقے والوں کا  اذانِ اول کو بیان کے بعد کرنے سے فتنہ کھڑا کرنے کا خطرہ ہو تو کیا کیا جائے؟

جواب کا متن:

اذانِ اول کے بعد خرید وفروخت منع ہے، اور   اذانِ اول کی ابتدا خلیفہ ثالث سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوئی اور یہ حکم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مصالحِ عوام کو مد نظر رکھتے ہوئے ’’تیسیراً علی الأمة‘‘ یہ حکم دیا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے تیسرے ’’خلیفہ راشد‘‘ ہیں،ان کی سنت کی اتباع اور ان کی اطاعت کا حکم خود صاحبِ شریعت  نے دیا ہے، اس لیے یہی مجمع علیہ اور سنت ہے،محدث العصر حضرت علامہ سیدمحمدیوسف بنوری نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زیادہ کی گئی یہ اذانِ اول زوال کے متصل بعد دی جاتی تھی،  خلافتِ راشدہ (عثمانی دور اور اس کے بعد) میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد امت کا معمول یہ تھا کہ اذانِ اول زوال کے متصل بعد کہی جاتی تھی اور پھر بعض حضرات امام کے خطبہ جمعہ سے قبل وعظ فرماتے تھے اور اذان ہوتے ہی بازاروں میں ’’حرمتِ بیع‘‘ کا اعلان ہوجاتاتھا جس پر کاروبار بند ہوجاتاتھا، اگر ایسا کرنا اقرب الی الصواب ہوتا جیساکہ ہمارے اس دور میں بعض مساجد میں معمول ہے کہ اذان اول کو مؤخر کرکے پہلے وعظ ہوتاہے، اس کے اختتام پر اذانِ اول ہوتی ہے پھر سنتوں کا وقت دیا جاتا ہے، پھراس کے بعد اذانِ ثانی کہی جاتی ہے اور خطیب خطبہ پڑھتاہے، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شخصیات جو کہ سابقین الی الخیرات تھیں وہ ضرور انجام دیتیں، لہذا  یہ  طریقہ سلفِ صالحین کے طریقۂ عمل کے قریب نہیں اور بالخصوص جب کہ وہ مقصد جس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیاہے ’’یعنی وہ حرمتِ بیع وشراء جو اذانِ اول کی بنا پر لازم آتی تھی وہ اذان نہ کہنے کی صورت میں مؤخر ہوجائے کہ جب اذان نہ دی جائے تو حرمت متعلق نہیں ہوگی‘‘ وہ بھی حاصل نہیں ہوتا‘ کیوں کہ عند البعض ’’نہی‘‘ کا تعلق زوالِ شمس کے ساتھ ہے، خواہ اذان کو مؤخر کیا جائے یا نہ کیا جائے ،بلکہ اذان تو اس اعلام کے لیے ہے کہ حرمت کا وقت داخل ہوگیاہے، پھر اس کے ساتھ ساتھ وہ خطرہ بھی تاخیرِ اذان کی صورت میں ہے، جسے فقہاءِ کرام نے ذکر فرمایا ہے کہ اذانِ اول کے ساتھ ہی بیع وشراء کی ممانعت اس لیے ہے  کہ اگر یہ ممانعت اذانِ ثانی کے ساتھ متعلق کی جائے تو سننِ قبلیہ اور سماعِ خطبہ کے فوت ہونے کا خطرہ بھی ہے؛ کیوں کہ وہ شہر جن کی آبادی پھیلی ہوئی ہے اور مساجد شہر میں کم ہیں، ان میں یہ خطرہ اور بھی زیادہ ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے فتاوی بینات 2/289 کا مطالعہ کیجیے)

مذکورہ تفصیل کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ  ہے کہ مذکورہ علاقے میں اذانِ اول بیان سے پہلی ہی دی جائے، اس کے بعد بیان وغیرہ ہو،  نیز ان لوگوں کا موقف درست ہے جو یہ کہہ رہے ہیں کہ اذانِ اول بیان سے پہلے دی جائے۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144003200173
تاریخ اجراء :21-11-2018