سوال کا متن:
میں ملتان کا رہائشی ہوں، اگر میں لاہور کا سفر کرتا ہوں اور لاہور میں جائیداد میں میرا حصہ ہے، یا لاہور میں پلاٹ میرے نام سے موجود ہے، کیا اس صورت میں نماز قصر ہوگی یا نہ ہوگی؟ جائیداد میں حصہ ہونے کی صورت میں دوسرے شہر میں جانا یاجس شہر میں جائیداد موجود ہو اس شہر کا سفر کرنا نمازِ قصر میں آئے گا یا نہیں؟
جواب کا متن:
فقہاءِ کرام نے وطنِ اصلی کی تعریف یہ کی ہے کہ وہ جگہ جو انسان کی جائے ولادت ہو یا جہاں اس نے شادی کرکے رہنے کی نیت کرلی ہو یا کسی جگہ مستقل رہنے کی نیت کرلی ہو۔ اس تعریف کی رو سےاگر کسی شخص کی دو یا دوسے زیادہ جگہوں پر عمر گزارنے کی نیت ہو کہ کبھی ایک جگہ کبھی دوسری جگہ، لیکن ان سے مستقل کوچ کرنے کی نیت نہ ہو تو یہ ساری جگہیں اس کے لیے وطنِ اصلی ہیں۔ لیکن اگر کسی جگہ صرف جائیداد ہو اور وہاں مستقل رہنے کی نیت نہ ہو تو اس جگہ کو وطنِ اصلی نہیں کہا جائے گا۔
الدر :
"(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه".
الرد:
"(قوله: أو توطنه) أي عزم على القرار فيه وعدم الارتحال وإن لم يتأهل". (فتاوی شامی، ۲/۱۳۱، سعید) فقط واللہ اعلم