نمازِ جنازہ پڑھانے کا حق دار کون؟

سوال کا متن:

ایک شخص کا والد فوت ہوتا ہے تو جنازہ پڑھانے کا حق کس کو ہے؟  اس کے بیٹے کو اگرچہ وہ عالم نہیں، لیکن تبلیغ میں چلہ اور چار مہینے لگے ہیں یا عالم کو اور وہ عالم موقع پر موجود بھی ہو؟

جواب کا متن:

فقہِ حنفی میں نما ز جنازہ کی امامت کے  لیے سب سے مقدم مسلمان حاکمِ وقت ہے اگر موجود ہو ، یا اس کا نائب، پھر قاضی، پھر امامِ مسجدِ محلہ اورپھر میت  کا ولی۔ محلہ کے امام کا ولی پر حقِ امامت میں مقدم ہونا استحباباً ہے، یعنی اگر باوجود امامِ محلہ  کے ولی نماز پڑھادے تو یہ بھی درست ہے ۔لہذا اگر مذکورہ صورت میں میت کا بیٹا جو اگرچہ عالم نہیں، لیکن نمازِ جنازہ پڑھانا اور اس کے متعلقہ مسائل جانتاہواور دِین دار ہوتو امام کی موجودگی میں اس کا نماز پڑھانادرست اور جائز ہے۔ فتاوی شامی میں ہے :

"( ويقدم في الصلاة عليه السلطان ) إن حضر ( أو نائبه ) وهو أمير المصر ( ثم القاضي ) ثم صاحب الشرط ثم خليفته القاضي ( ثم إمام الحي ) فيه إيهام وذلك أن تقديم الولاة واجب، وتقديم إمام الحي مندوب فقط بشرط أن يكون أفضل من الولي وإلا فالولي أولى، كما في المجتبى و شرح المجمع للمصنف، وفي الدراية: إمام المسجد الجامع أولى من إمام الحي أي مسجد محلته ، نهر، ( ثم الولي ) بترتيب عصوبة الإنكاح إلا الأب". (2/219)

تبیین الحقائق میں ہے :

"( فصل ) قال رحمه الله : ( السلطان أحق بصلاته ) نص عليه أبو حنيفة بقوله: الخليفة أولى إن حضر، فإن لم يحضر فإمام المصر، وهو سلطانها؛ لأنه في معنى الخليفة، وبعده القاضي، وبعده صاحب الشرطة، وبعده خليفة الوالي، وبعده خليفة القاضي، وبعد هؤلاء إمام الحي، فإن لم يحضروا فالأقرب من ذوي قرابته، وذكر في الأصل: أن إمام الحي أولى بها، وقال أبو يوسف: ولي الميت أولى بها؛ لأن هذا حكم تعلق بالولاية كالإنكاح. وجه الأول ما روي أن الحسين بن علي لما مات الحسن رضي الله عنهم قدم سعيد بن العاص فقال: لولا السنة لما قدمتك، وكان سعيد والياً في المدينة يومئذٍ، هكذا ذكره في اللباب ؛ ولأن في التقدم عليه استخفافاً به ، وتعظيمه واجب شرعاً، وما ذكره في الأصل محمول على ما إذا لم يحضر السلطان ، ولا من يقوم مقامه". (3/175)فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144010200098
تاریخ اجراء :15-06-2019