زندگی میں اپنے لیے قبر تیار کرنا

سوال کا متن:

ایک علاقے کا مشترکہ قبرستان ہے، اہلِ علاقہ کے آباؤ واجداد سے چلاآرہاہے، ایک بندہ اس میں اپنے لیے قبر کھودلیتاہے اپنی زندگی میں، کیا یہ عمل جائزہے؟

جواب کا متن:

زندگی میں اپنے لیے ذاتی زمین یا ذاتی قبرستان میں  قبر تیار کرنا جائز ہے، البتہ وقف قبرستان میں قبر کے لیے جگہ گھیرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ وہ شخصی جائیداد نہیں ہے، اسی طرح اگر  یہ زمین سرکاری طور پر اس علاقہ والوں کے لیے مشترکہ طور پر قبرستان کے لیے مختص کی گئی ہو ، تو اس میں بھی کسی فرد کے لیے قبل از وقت کسی خاص جگہ کو اپنے لیے مختص کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے اس میں عام لوگوں کا حق متعلق ہے، اور اگر زمین چند افراد کی مملوکہ ہو تو ان سب کی اجازت سے اس میں قبر تیار کی جاسکتی ہے۔

امداد الاحکام میں ایک سوال کے جواب میں تحریر ہے:

’’الجواب:  یہ صورت اپنی مملوک زمین میں تو جائز ہے، مگر ایسی زمین میں جس کے ساتھ حقِ عامّہ متعلق ہو جائز نہیں؛ کیوں کہ جس زمین میں حقِ عامّہ متعلق ہو اس میں کسی خاص حصّے کا تعین قبل از وقت کسی کو حق نہیں، البتہ اگر سائل اس زمین میں سے کچھ قلعہ اپنے خاندان کے دفن کے لیے سرکار سے خریدے تو پھر اس پر اس کا اونچا کرنا جائز ہے‘‘۔ (3/293)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

’’ومن حفر قبراً لنفسه قبل موته فلا بأس به ویؤجر علیه، هكذا عمل عمر بن عبد العزیز والربیع بن خیثم وغیرهم‘‘.  (تاتار خانیۃ،کتاب الصلاۃ ، الجنائز ، القبروالدفن ۳/۷۶، رقم: ۳۷۴۹)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 244):
’’ويحفر قبراً لنفسه، وقيل: يكره؛ والذي ينبغي أن لايكره تهيئة نحو الكفن بخلاف القبر.
(قوله: ويحفر قبراً لنفسه) في بعض النسخ: وبحفر قبر لنفسه، على أن لفظة حفر مصدر مجرور بالباء مضاف إلى قبر: أي ولا بأس به. وفي التتارخانية: لا بأس به، ويؤجر عليه، هكذا عمل عمر بن عبد العزيز والربيع بن خيثم وغيرهما. اهـ‘‘.

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (4/ 179):
’’وَذَلِكَ لِأَن الْمَقَابِر وقف من أوقاف الْمُسلمين لدفن موتاهم لَايجوز لأحد أَن يملكهَا‘‘. 
فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144007200063
تاریخ اجراء :12-03-2019