قبرپر مٹی ڈالنے اور تین مٹھی مٹی ڈالنے کا ثبوت

سوال کا متن:

کیا قبر پر مٹی ڈالنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے؟  کیا قبر میں 3 مٹھی مٹی ڈالنا سنت ہے ؟ یا 3 مٹھی سے متعلق کوئی حدیث؟

جواب کا متن:

 جی ہاں! میت کے لیے زمین میں گھڑا کھود کر اس پر مٹی ڈال کر دفن کرنے کا طریقہ انسان کے لیے فطری طریقہ ہے، جس کا ذکر قرآنِ مجید میں صراحتاً بھی ہے اور اشارۃً بھی، قرآنِ مجید میں ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام نے بیٹے قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تو اسے سمجھ نہ آیا کہ میں اس کی لاش کا کیا کروں؟ تو اللہ تعالیٰ نے اسے تدفین کا طریقہ سکھانے کے لیے ’’کوا‘‘ بھیجا جس نے مردہ ’’کوے‘‘  کو اس کے سامنے دفن کیا، یوں انسان کے لیے بھی مردے کو دفنانے کا طریقہ طے ہوا، اللہ تعالیٰ نے کوے کے بھیجنے اور اس کے سکھانے کی نسبت اپنی طرف کی ہے، گویا میت کو دفن کرنے کا طریقہ (جس میں زمین کھود کر مردے کو گھڑے میں رکھ کر اوپر مٹی ڈالی جاتی ہے) خود اللہ تعالیٰ کا تلقین کردہ ہے۔  (سورۃ المائدۃ، آیت: 31)

نیز (سورہ طٰہٰ، آیت: 55) میں ہے کہ اسی (زمین) سے ہم نے تمہیں پیدا کیا، اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے ہم تمہیں دوسری مرتبہ نکالیں گے۔

تدفین کے احکام کی تفصیلات اور سنت طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت ہے، چناں چہ قبر پر  تین مٹھی مٹی ڈالنے کا ذکر بھی حدیثِ مبارک میں ہے کہ  آپ ﷺ نے جنازہ کے بعد  تدفین کے وقت  مردے کے سر کی جانب سے تین مٹھی مٹی  کی ڈالی ۔ لہذا یہ طریقہ مسنون (مستحب) ہے کہ دونوں ہاتھ سے مٹھی بھر کر تین مرتبہ قبر پر مٹی ڈالی جائے، پہلی مٹھی سرہانے کی جانب، دوسری درمیان میں اور تیسری پاؤں کی جانب، اور مستحب ہے کہ پہلی مٹھی ڈالتے ہوئے یہ پڑھے: { مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ } دوسری مٹھی ڈالتے وقت یہ پڑھے: { وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ } اور تیسری مٹھی ڈالتے ہوئے یہ کہے: { وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى }. البتہ اگر تدفین کے موقع پر افراد  کم ہوں کہ ہر ایک تین مرتبہ مٹی ڈال دے پھر بھی قبر پر مٹی ڈالنے کی ضرورت ہو تو مزید مٹی بھی ڈالی جائے گی، تین مرتبہ مٹھی بھر کر مٹی ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ مٹی ڈالنے والا ہر شخص  کم از کم  اتنی مٹی ڈالے یہ مستحب طریقہ ہے۔

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 456):
"1734- (28) وعن أبي هريرة: ((أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى على جنازة، ثم أتى القبر فحثى عليه من قبل رأسه ثلاثاً)) . رواه ابن ماجه".

تفسیر ابن کثیر: سورة طه:20:55:
"وفي الحديث الذي في السنن: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم حضر جنازة، فلما دفن الميت أخذ قبضة من التراب فألقاها في القبر ثم قال: { مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ } ثم [أخذ] أخرى وقال: { وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ } . ثم أخذ أخرى وقال: { وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى }".

 

مسند أحمد:22540:

"حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنِى أَبِى حَدَّثَنَا عَلِىُّ بْنُ إِسْحَاقَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ - يَعْنِى ابْنَ الْمُبَارَكِ - أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ عَنْعَلِىِّ بْنِ يَزِيدَ عَنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِى أُمَامَةَ قَالَ: لَمَّا وُضِعَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِى الْقَبْرِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: « {مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى} ». قَالَ ثُمَّ لاَ أَدْرِى أَقَالَ: « بِسْمِ اللَّهِ وَفِى سَبِيلِ اللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ». أَمْ لاَ، فَلَمَّا بَنَى عَلَيْهَا لَحَدَهَا طَفِقَ يَطْرَحُ لَهُمُ الْجَبُوبَ، وَيَقُولُ: « سُدُّوا خِلاَلَ اللَّبِنِ ». ثُمَّ قَالَ: « أَمَا إِنَّ هَذَا لَيْسَ بِشَىْءٍ، وَلَكِنَّهُ يَطِيبُ بِنَفْسِ الْحَىِّ »​". 

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 456):
"قوله: (فحثى عليه) أي رمى على قبره بالتراب. (ثلاثاً) أي ثلاث حثيات. (رواه ابن ماجه) قال الحافظ في التلخيص (ص165) بعد نقل هذا الحديث عن ابن ماجه: وقال أبوحاتم في العلل: هذا حديث باطل قلت (قائله الحافظ): إسناده ظاهره الصحة. قال ابن ماجه: حدثنا العباس بن الوليد الدمشقي ثنا يحيى بن صالح ثنا سلمة بن كلثوم ثنا الأوزاعي عن يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى على جنازة الخ، ليس لسلمة بن كلثوم في سنن ابن ماجه وغيرها إلا هذا الحديث الواحد، ورجاله ثقات، وقد رواه ابن أبي داود في كتاب "التفرد" له من هذا الوجه، وزاد في المتن أنه كبر عليه أربعاً، وقال بعده: ليس يروى في حديث صحيح أنه صلى الله عليه وسلم كبر على جنازة أربعاً إلا هذا، فهذا حكم منه بالصحة على هذا الحديث. لكن أبوحاتم إمام لم يحكم عليه بالبطلان إلا بعد أن تبين له، وأظن العلة فيه عنعنة الأوزاعي وعنعنة شيخه".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 236):
"(قوله: ويستحب حثيه) أي بيديه جميعاً، جوهرة. قال في المغرب: حثيت التراب حثياً وحثوته حثواً: إذا قبضته ورميته. اهـ. ومثله في القاموس، فهو واوي ويائي فافهم (قوله: من قبل رأسه ثلاثاً)؛ لما في ابن ماجه عن أبي هريرة «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى على جنازة ثم أتى القبر فحثى عليه من قبل رأسه ثلاثاً». شرح المنية. قال في الجوهرة: ويقول في الحثية الأولى:{منها خلقناكم} [طه: 55]، وفي الثانية:{وفيها نعيدكم} [طه: 55]،  وفي الثالثة:{ومنها نخرجكم تارةً أخرى} [طه: 55]. وقيل: يقول في الأولى: اللهم جاف الأرض عن جنبيه، وفي الثانية: اللهم افتح أبواب السماء لروحه، وفي الثالثة: اللهم زوجه من الحور العين. وللمرأة: اللهم أدخلها الجنة برحمتك اهـ".
فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008200615
تاریخ اجراء :01-05-2019