اسقاطِ حمل کے بعد نماز روزوں کا حکم

سوال کا متن:

میرے حیض آنے کی آخری تاریخ 16 فروری 2019 تھی، مجھے حمل ٹھیرا اور چھ ہفتوں میں خون جاری ہوگیا، کچھ دن بعد ڈاکٹر کو دکھایا، انہوں نے حمل کی حفاظت کے لیے تین ہفتے کھانے کے لیے دوائی دی ، جس سے خون رک گیا، مگر 16 یا 17 دن بعد دوبارہ خون جاری ہوگیا، تو تین دن بعد 30 اپریل 2019 کو دوبارہ ڈاکٹر کو دکھایا، الٹراسائونڈ کرایا گیا اس میں آیا کہ حمل کی عمر 10 ہفتے چار دن ہے، مگر آٹھویں  ہفتے میں حمل ضائع ہوچکا ہے،  ابھی 2 مئی کو صبح 10 سے 11 کے درمیان میری dnc ہوئی ہے، اس کے بعد صرف ایک بار پیڈ میں ایک دھبہ آیا ہے، اب کچھ نہیں ہے اور آج 3 مئی ہے، اب میں کیا کروں؟ نماز روزوں کا کیا حکم ہے؟

واضح رہے کہ مجھے حیض پچلی تاریخوں سے ہمیشہ چار دن پہلے آتے ہیں، جیسے جنوری میں 20 کو آئے رو فروری میں 16 کو آئے تھے

جواب کا متن:

واضح رہے کہ بچہ کے اعضاء میں سے کوئی عضو بن جانے کے بعد اگر حمل ضائع ہوجائے تو dnc کے بعد آنے والا خون نفاس شمار ہوتا ہے اور اگر اعضاء میں سے کوئی عضو بننے سے پہلے حمل ضائع ہوجائے تو بعد میں آنے والا خون، حیض کی عادت کے ایام کے مطابق حیض شمار ہوتا ہے اور دس دن سے تجاوز کرجانے کی صورت میں عادت کے ایام سے زائد ایام استحاضہ کے شمار ہوتے ہیں، جن دنوں میں خاتون پر نماز، روزہ رکھنا ضروری ہوتا ہے اور وہ دیگر تمام عبادات بھی کر سکتی ہے۔ بچے  کے  اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے تقریباً چار مہینے  لکھی ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جو حمل آٹھویں ہفتے میں ضائع ہوگیا تھا، اس حمل کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا،  یعنی اس سے نہ تو عورت کی عدت گزرے گی اور نہ اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس  کا ہوگا، پس اگر 2 مئی کو dnc کرانے کے بعد سے تا حال ایک دھبہ کے علاوہ کچھ ظاہر نہ ہوا ہو، تو سائلہ نماز و زروہ ادا کرنے کی پابند ہوگی، اور اگر 3 مئی کے بعد خون آگیا تھا تو عادت کے مطابق یہ ایام حیض کے شمار ہوں گے، جس میں نماز روزہ تلاوت کلام مجید وہ ترک کر دے گی، البتہ اگر عادت سے تجاوز کرگیا اور دس دن تک بند ہوگیا تب بھی یہ سارے ایام حیض کے ہی شمار ہوں گے، اور اگر آنے والا خون دس دن سے تجاوز کرگیا ہو تو، سائلہ کی حیض کے سلسلہ میں جو عادت تھی وہ ایام حیض کے شمار ہوں گے، عادت کے علاوہ باقی تمام ایام استحاضہ کے شمار ہوں گے، جس میں اسے نماز ادا کرنا اور روزہ رکھنا لازم ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 302):

"(وسقط) مثلث السين: أي مسقوط (ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولايستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوماً (ولد) حكماً (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء فليس بشيء، والمرئي حيض إن دام ثلاثاً وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة، ولو لم يدر حاله ولا عدد أيام حملها ودام الدم تدع الصلاة أيام حيضها بيقين ثم تغتسل ثم تصلي كمعذور.  (قوله: فليس بشيء) قال الرملي في حاشية المنح بعد كلام: وحاصله: أنه إن لم يظهر من خلقه شيء فلا حكم له من هذه الأحكام (قوله: والمرئي) أي الدم المرئي مع السقط الذي لم يظهر من خلقه شيء ... (قوله: وإلا استحاضة) أي إن لم يدم ثلاثاً وتقدمه طهر تام، أو دام ثلاثاً ولم يتقدمه طهر تام، أو لم يدم ثلاثاً ولاتقدمه طهر تام ح. (قوله: ولو لم يدر حاله إلخ) أي لايدري أمستبين هو أم لا؟ بأن أسقطت في المخرج واستمر بها الدم، فإذا كان مثلاً حيضها عشرة وطهرها عشرين ونفاسها أربعين، فإن أسقطت من أول أيام حيضها تترك الصلاة عشرةً بيقين؛ لأنها إما حائض أو نفساء ثم تغتسل وتصلي عشرين بالشك لاحتمال كونها نفساء أو طاهرةً ثم تترك الصلاة عشرةً بيقين؛ لأنها إما نفساء أو حائض، ثم تغتسل وتصلي عشرين بيقين لاستيفاء الأربعين، ثم بعد ذلك دأبها حيضها عشرة وطهرها عشرون، وإن أسقطت بعد أيام حيضها فإنها تصلي من ذلك الوقت قدر عادتها في الطهر بالشك، ثم تترك قدر عادتها في الحيض بيقين. وحاصل هذا كله أنه لا حكم للشك، ويجب الاحتياط. اهـ من البحر وغيره، وتمام تفاريع المسألة في التتارخانية، ونبه في البدائع على أن في كثير من نسخ الخلاصة غلطاً في التصوير من النساخ".  فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008200680
تاریخ اجراء :03-05-2019