قمری کلینڈر بناکر پیشگی رمضان اور عید کی تاریخ کے اعلان کا حکم

سوال کا متن:

عید کے چاند کے حوالے سے موجودہ حکومت نے جو رویت ہلال کمیٹی ختم کی ہے اور ابھی سے 5 جون کو عید منانے کا اعلان کیا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن:

اسلامی عبادات  مثلاً روزہ، حج ، زکاۃ وغیرہ کا تعلق  قمری مہینہ سے ہے، اور خصوصاً  رمضان المبارک  کی تو ابتدا  ہی چاند دیکھنے پر موقوف ہے، ارشادِ باری تعالی ہے : { فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ } [البقرة: 185] اور اس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ایک آسان  اور عام فہم طریقہ بتادیا کہ  چاند دیکھنے پر روزہ رکھو ، اور  چاند دیکھنے پر افطار کرو، تاکہ ایک عام فہم،سادہ لوح مسلمان کے لیے بھی فرائض کی ادائیگی آسان ہو، لہذا روزہ اور عید کا مدار چاند کی رؤ یت پر ہے، یعنی اگر چاند نظر آئے تو رمضان شروع ہونے کا حکم ہوگا، اور چاند نظر نہ آئے تو رمضان کا آغاز نہیں ہوگا، یہی حکم عید کا بھی ہے۔ خواہ آسمان ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے، اور فلکیات کے قواعد کے مطابق بادلوں کے پیچھے اس کا وجود یقینی ہو، تب بھی ظاہری رؤیت کا اعتبار کیا جائے گا۔

لہٰذا اس کو پہلے سے کلینڈر وغیرہ بناکر متعین نہیں کیا جاسکتا، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ چاند دیکھنے کا اہتمام کریں اور اسلامی ملک میں باقاعدہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی ہونی چاہیے؛ تاکہ چاند نظر آنے پر وہ اس کا اعلان کرے۔

         مشكاةالمصابيح  میں ہے:

"عن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لاتصوموا حتى تروا الهلال، ولاتفطروا حتى تروه، فإن غم عليكم فاقدروا له». وفي رواية قال: «الشهر تسع وعشرون ليلةً، فلاتصوموا حتى تروه، فإن غم عليكم فأكملوا العدة ثلاثين»". (1/174، باب رویۃ الہلال، الفصل الاول، ط؛ قدیمی)

یہ بھی واضح رہے کہ  تمام اسلامی ممالک  میں یا کسی ایک اسلامی ملک میں   بیک وقت عید منانا یا رمضان المبارک  کا  شروع ہوجانا  شرعاً ضروری نہیں ہے،   اس لیے کہ ہماری  عیدیں اور رمضان کوئی تہوار نہیں، بلکہ خصوصی عبادت کے اوقات ہیں،  جیسے  دیگر عبادات میں وقت یا تاریخ کا ایک ہونا  شرعاً ضروری نہیں، بلکہ  ہم دیکھتے ہیں کہ  نماز کے اوقات مختلف ملکوں میں یا ایک ملک کے مختلف شہروں میں الگ  الگ ہوتے  ہیں، ہماری شریعت میں عبادات کا تعلق ظاہری علامات سے جوڑ کر ہمیں بہت آسانی دی گئی ہے۔   غرض ہماری عید اور رمضان یہ عیسائیوں یا آتش پرستوں کے تہوار  کی طرح کوئی  تہوار  یا تقریب نہیں کہ  جس کو پوری دنیا میں ایک تاریخ میں کرنے کی  فکر کی جائے، بلکہ یہ سب عبادات ہیں، جو ہر خطے میں علامات کے وجود کے ساتھ مقید ہوں گی۔

  نیز اگر پوری دنیا میں  ایک ہی تاریخ میں عیدمنانا  مطلوب ہوتا تو  نبی کریمﷺ کی مدنی زندگی میں، خلفائے راشدین، صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین  کے دور میں اس کی کوئی اصل ہوتی، حال آ ں کہ نبی کریمﷺ، صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے مبارک دور میں اس کا اہتمام نہیں کیا گیا، اور نہ ہی اس کے لیے کسی نے آواز اٹھائی، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما کی روایت سے صحابہ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ ملک شام میں جمعہ کو چاند دیکھا گیا اور مدینہ میں اس دن چاند نظر نہیں آیا،  شام  کے  لوگوں نے  ہفتہ کے دن روزہ رکھا ، جب کہ مدینہ کے لوگوں  نے اتوار سے رمضان شروع کیا، مدینہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما کو   حضرت کریب کی تنہا شہادت سے  رمضان ختم ہونے سے پہلے  شام میں جمعہ کے دن چاند دیکھے جانے کا علم ہوگیا تھا،  اگرپوری دنیا میں عید کی نماز ایک دن میں پڑھنا اور رمضان کا روزہ ایک ہی دن میں شروع کرنا شرعاً  کوئی پسندیدہ چیز ہوتی تو فوری طور پر  ملک شام سے دوسری شہادت طلب کرکے  یہ وحدت قائم  کی جاسکتی تھی،  اوریہ کوئی مشکل بھی نہ تھا، تاہم  حضرت ابن عباس ؓ نے  حضرت کریبؓ کے اصرار کے باوجود اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی، اس لیے تمام مسلمانوں کے لیے رمضان کا روزہ ایک دن میں شروع کرنا ، اور عیدایک ہی تاریخ میں کرنا، اور اسے ضروری یا مستحسن سمجھنا، یہ خیال درست نہیں ہے۔

البتہ  کسی علاقے میں کوئی قاضی یا حکومت کی طرف سے مقرر کردہ  کمیٹی پورے  ضلع یا صوبے  یا پورے ملک  کے لیے ہو  اور وہ شرعی شہادت  موصول ہونے پر  چاند نظر آنے کا اعلان کردے تو اس کے فیصلے پر اپنی حدود اور ولایت میں  ان لوگوں پرجن تک فیصلہ اور اعلان یقینی اور معتبر ذریعے سے پہنچ جائے  عمل  کرنا واجب ہوگا،  چوں کہ  مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی  قاضی شرعی کی  حیثیت    رکھتی ہے، لہذا شہادت موصول ہونے پر اگر وہ اعلان کردے تو ملک میں  جن لوگوں تک یہ اعلان    معتبر ذرائع سے پہنچ جائے ، ان پر روزہ رکھنا یا عید کرنا لازم ہوگا۔

         مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے علاوہ غیر مجاز ، پرائیویٹ کمیٹیاں رؤیت ہلال کا فیصلہ کرنے میں خود مختار نہیں ہیں، اور ان کا فیصلہ دوسرے لوگوں کے لیے قابل عمل نہیں ہے، اس لیے ان کو ولایت عامہ حاصل نہیں ہے، اور ان کا اعلان عام لوگوں کے لیے حجت نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008201574
تاریخ اجراء :27-05-2019