صرف عاشوراء کا ایک روزہ رکھنے کا حکم

سوال کا متن:

صرف عاشورہ کا روزہ رکھنا کیسا ہے؟ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا جس کا مفہوم ہے کہ آئندہ  سال زندہ رہا تو دو روزے رکھوں گا؟ اب تو یہود روزہ نہیں رکھتے؟ شریعت کی روشنی میں وضاحت فرما دیں!

جواب کا متن:

محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا مستحب ہے، رمضان کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں کے روزوں میں محرم کی دسویں تاریخ کے روزے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، اور اس ایک روزے کی وجہ سے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہِ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عاشوراء کے دن قریش جاہلیت کے زمانے میں روزہ رکھتے تھے اور آپ ﷺ بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، پھر جب آپ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے مسلمانوں کو بھی عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا، پھر جب رمضان کے روزے فرض کردیے گئے تو اب وہی فرض ہیں، اور عاشوراء کے روزے کی فرضیت چھوڑ دی گئی، اب جو چاہے رکھے اور جو چاہے چھوڑ دے۔ (حدیث صحیح، جامع الترمذی، ابواب الصوم، باب ماجاء فی الرخصۃ فی ترک صوم یوم عاشوراء، (1/158) ط: قدیمی)

مذکورہ حدیث سے معلوم ہواکہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے (سنہ 2 ہجری) سے پہلے مکی دور میں بھی  رسول اللہ ﷺ  اہتمام سے عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ ﷺ نے مسلمانوں کو بھی بہت اہتمام سے اس کا حکم دیا، بہت سے فقہاء کے مطابق اس وقت عاشوراء کا روزہ فرض تھا، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کے روزے کی حیثیت استحباب کی رہ گئی۔ 

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے اور اس کی ترغیب دیتے تھے اور اس دن ہمیں نصیحت کرنے کا اہتمام فرماتے تھے، پھر جب رمضان فرض کردیا گیا تو آپ ﷺ نے ہمیں نہ تو عاشوراء کے روزے کا حکم دیا نہ اس سے روکا اور نہ اس دن نصیحت کا اہتمام فرمایا۔ (مسلم، بحوالہ مشکاۃ)

آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مدنی دور کے آغاز سے ہی عاشوراء کا روزہ رکھا، اور ابتدا میں آپ ﷺ ہر عمل میں اہلِ کتاب کی مخالفت نہیں کرتے تھے، بلکہ ابتداءِ اسلام میں بہت سے اعمال میں تالیفِ قلوب کے لیے نرمی کی گئی، مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس مقرر کیا گیا وغیرہ۔ مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ ﷺ اور صحابہ کرام تو اسلام کے حکم کے مطابق عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، جب آپ ﷺ نے یہود کو  عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے اس کے متعلق ان سے دریافت کیا، چناں چہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: یہ کیسا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ یہود نے کہا: یہ بڑا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی تھی، اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا، اس کے شکر میں موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا، ہم بھی اسی لیے روزہ رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہم موسی علیہ السلام کے طریقے کی پیروی اور اتباع کے زیادہ حق دار اور ان سے قریب ہیں، چناں چہ آپ ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی عاشوراء کے روزے کا حکم دیا۔ (بخاری ومسلم)

آپ ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت اور اتباع کا ذکر فرمایا نہ کہ یہود کی موافقت کا، یعنی ہم یہ روزہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت میں رکھیں گے اور ہم انبیاء کرام علیہم السلام کے طریقے کی پیروی کے زیادہ حق دار ہیں۔ بعد میں جب یہود کی مکاریوں اور ضد وعناد کے نتیجے میں آپ ﷺ نے یہود کی مخالفت کا حکم دیا تو اس وقت لوگوں نے آپ ﷺ سے عاشوراء کے روزے کے حوالے سے بھی دریافت کیا، چناں چہ ''حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کے دِن روزہ رکھا اَور صحابہ کوبھی اِس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ ایسا دن ہے کہ یہودونصارٰی اِس کی بہت تعظیم کرتے ہیں (اَورروزہ رکھ کر ہم اِس دِن کی تعظیم کرنے میں یہودونصارٰی کی موافقت کرنے لگتے ہیں جب کہ ہمارے اَوراُن کے دین میں بڑا فرق ہے )۔ آپ نے فرمایا:  آئندہ سال اِن شاء اللہ ہم نویں تاریخ کو (بھی) روزہ رکھیں گے۔ حضرت ابن ِعباس  فرماتے ہیں کہ آئندہ سال محرم سے پہلے ہی  آپ ﷺ کاوصال ہوگیا''۔
"سمعت عبد الله بن عباس رضي الله عنهما يقول: حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه، قالوا: يا رسول الله إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع»، قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم" . (صحيح مسلم، (2/ 797)

حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تم نویں اَوردسویں تاریخ کا روزہ رکھواَوریہود کی مخالفت کرو''۔
"وروي عن ابن عباس أنه قال: «صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود»". (سنن الترمذي، (3/ 120)
لہذا  ماہِ محرم کی دسویں تاریخ یعنی عاشوراء کے روزہ کا سنت ہونا حضورﷺ کے عمل اور قول سے ثابت ہے، اور تشبہ سے بچنے کے لیے نویں  تاریخ کے روزے کا قصد بھی ثابت ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان بھی ثابت ہے کہ نویں اور دسویں کو روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔  یہودیوں  میں  عاشوراء کے روزے کا رواج نہیں  ہے، یہ ثابت کرنا مشکل ہے، ان میں  سے بعض پرانے لوگ جو بزعمِ خود اپنے مذہب کے پابند ہیں  روزہ رکھتے ہوں  گے، بلکہ بعض اہلِ علم نے بیان کیا ہے کہ یہود کے اہلِ علم اور ربی آج بھی اس روزے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس لیے کہ شریعتِ موسوی میں عاشوراء کا روزہ بطورِ شکر لازم تھا، جیساکہ سابقہ سطور میں بحوالہ گزر چکاہے۔

لہذا علتِ تشبہ قائم ہے، اور اس سے بھی انکار نہیں  کہ چودہ سو سال سے امت کا اس پر عمل چلا آرہا ہے، اور امت کے اہلِ علم کا توارث اور مسلسل عمل بھی بجائے خود دلیل ہے، تراویح کی بیس رکعت کے بعد اجتماعی دعا منقول نہیں،  لیکن امت اور اکابر کے عمل کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے اور دعا مانگی جاتی ہے ، علی ہذا عید الاضحی کی نماز کے بعد تکبیر ثابت نہیں  ہے، فقہاء نے ۲۳ نمازیں  شما رکی ہیں  جن کے بعد تکبیرات تشریق کہی جاتی ہیں  اور یہ چوبیسویں  نماز ہوجاتی ہے، مگر توارث کی بناپر تکبیر کہنے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور بعض نے واجب  تک فرما دیا ہے،"ولا بأ س به عقب العید؛ لان  المسلمین توارثوه، فوجب اتباعهم، وعلیه البلخیون".(درمختار مع الشامی ج۱ ص ۷۸۶ مطلب فی تکبیر التشریق)

لہذا عاشوراء (یعنی دسویں  محرم ) کے روزے کے ساتھ نویں  تاریخ کا روزہ بھی رکھنا ہوگا، اگر نویں  کا نہ رکھ سکے تو دسویں  کے ساتھ گیارہویں  کا بھی روزہ رکھ لے۔ ( فتاوی رحیمیہ 7/273) 

 تاہم اگر کسی بنا پر دو روزے نہ رکھ سکے تو کم سے کم دسویں تاریخ کا  ایک روزہ رکھنے کی کوشش کرلے،  اس روزہ کا ثواب ملے گا۔ بلکہ  حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  کہ عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں:

(۱) نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے (۲) نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے (۳) صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔

ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، اور  تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہاء نے کراہتِ تنزیہی سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزہ کو آپ ﷺ نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔

العرف الشذي شرح سنن الترمذي (2/ 177)
 "وحاصل الشريعة: أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى، وأما ما في الدر المختار من كراهة صوم عاشوراء منفرداً تنزيهاً، فلا بد من التأويل فيه أي أنها عبادة مفضولة من القسمين الباقيين، ولا يحكم بكراهة؛ فإنه عليه الصلاة والسلام صام مدة عمره صوم عاشوراء منفرداً، وتمنى أن لو بقي إلى المستقبل صام يوماً معه".
فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144001200054
تاریخ اجراء :13-09-2018