گروی (رہن) رکھے ہوئے زیورات کی زکاۃ کا حکم

سوال کا متن:

گروی رکھے زیورات کی زکاۃ کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن:

گروی (رہن) رکھے ہوئے زیورات کی زکاۃ  نہ تو راہن کے ذمہ واجب ہوتی ہے اور نہ ہی مرتہن کے ذمہ پر، کیوں کہ زکاۃ  کے وجوب کے لیے مالِ زکاۃ  کی ملکیت اور اس مال پر قبضہ دونوں  حاصل ہونا شرط ہے، جب کہ راہن (گروی رکھوانے والے) کو  گروی رکھے ہوئے زیورات پر قبضہ اور تصرف کا اختیار حاصل نہیں ہوتا،  جب کہ مرتہن (جس کے پاس زیور گروی رکھاہو) کو گروی کے زیورات کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی۔

الفتاوى الهندية (1/ 172):

"ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لاتجب فيه الزكاة، كذا في السراج الوهاج ... ولا على الراهن إذا كان الرهن في يد المرتهن، هكذا في البحر الرائق".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 263):

"ولا في مرهون بعد قبضه.

 (قوله: ولا في مرهون) أي لا على المرتهن؛ لعدم ملك الرقبة، ولا على الراهن؛ لعدم اليد، وإذا استرده الراهن لايزكي عن السنين الماضية، وهو معنى قول الشارح بعد قبضه، ويدل عليه قول البحر: ومن موانع الوجوب الرهن ح، وظاهره ولو كان الرهن أزيد من الدين ط".فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144008201602
تاریخ اجراء :27-05-2019